مظاہروں کے درمیان پتن تیسری مرتبہ صدر بنے



Published On 11 May 2012
انل نریندر
روس میں بڑا مینڈیٹ حاصل کرنے والے مقبول لیڈر ولادیمیر پتن نے پیر کے روز تیسری بار روس کے صدر کی ذمہ داری سنبھال لی۔ کبھی روس کو خوشحالی کی بلندیوں پر لے جانے کا خواب دکھانے والے اس لیڈر نے اس مرتبہ جمہوری اقدار کو مضبوطی دینے کا اعلان کیا۔ یہ تیسرا موقعہ ہے جب پتن نے روس کا اقتدار سنبھالا ہے۔ اس سے پہلے 2000 سے 2008ء تک وہ صدر تھے۔ اس کے بعد چار سال تک وہ وزیر اعظم کی شکل میں اقتدار کا ایک بڑا مرکز بنے رہے ۔پتن کا کہنا ہے جب میں روسی صدر کے طور پر حلف لیتا ہوں تومیں اپنے شہریوں کے حقوق اور آزادی کا احترام اور سلامتی بنائے رکھوں گا۔حلف لینے کے فوراً بعد پتن نے وزیر اعظم کی شکل میں میدوف کا نام تجویز کیا۔ یہ دونوں لیڈروں کے درمیان اقتدار کی سانجھے داری کو لیکر ہوئے سمجھوتے کے تحت کیا تھا۔ مانا جارہا ہے کہ روسی پارلیمنٹ کے نچلے ایوان ڈوما کا ایک خصوصی اجلاس بلا کر وزیر اعظم کی شکل میں میدوف کے نام پر باقاعدہ طور سے توثیق ہوجائے گی لیکن پتن کی حلف برداری تقریب تنازعوں سے بچ نہیں سکی۔ حلف برداری تقریب کے دوران ماسکو میں لوگوں نے جم کر احتجاج اور مظاہرے کئے۔ اپوزیشن کے لیڈر بورس نمتسوت سمیت 120 ورکروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایتوار سے ابھی تک 400سے زیادہ لوگ گرفتار ہوچکے ہیں۔ کچھ مغربی ممالک بھی پتن کی نکتہ چینی کررہے ہیں۔ وہ اقتدار سے چپکنے کی پتن کی کوششوں کی نکتہ چینی ہورہی ہے لیکن پتن نے ان کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ حلف لینے کے بعد انہوں نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ روس قومی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ ہمیں اپنے معیار ات و نشانو ں کو مقرر کرنا ہوگا۔ آنے والے برسوں میں روس کا مستقبل طویل عرصے کے لئے طے ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا میدوف نے جدیدی کرن کو نئی رفتار دی ہے اور اس میں تبدیلی جاری رہے گی۔ جمہوریت کو مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روسی جمہوریت اور آئینی اختیارات کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ میں اسے اپنی زندگی کا مقصد مانتا ہوں۔ اپنے لوگوں کی خدمت کرنا ہمارا عزم ہے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد پتننے اپنی پہلی تقریر میں امریکہ سے کہا کہ وہ اس بات کی گارنٹی دے کہ اس کا میزائل سسٹم روس کے خلاف نہیں ہے۔ حلف برداری کے فوراً بعد روس کا نیوکلیائی سوٹ کیس پتن کے سپرد کردیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنی سرکار کا نظریہ صاف کردیا اور نئے فرمان کے مطابق روس امریکہ کے ساتھ اور گہرے رشتے چاہتا ہے لیکن وہ اپنے اندرونی معاملوں میں کسی طرح کی کوئی دخل اندازی قطعی برداشت نہیں کرے گا۔ روس امریکہ کے ساتھ رشتوں کو صحیح طور پر بالائی سطح تک لے جانا چاہتا ہے لیکن وہ ایسا ایک برابری کے رشتے کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے جہاں دونوں دیش ایک دوسرے کے مفادات کا احترام کریں۔ جہاں روسیوں کو پتن سے بہت امیدیں ہیں وہیں ان کے سامنے چیلنج بھی کم نہیں ہیں۔ دیش کے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر پتن کو ہوشیاری سے قدم رکھنے ہوں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کے پتن نے روس کی گرتی ساکھ کو کچھ حد تک سنبھالا ہے۔ سبھی روسی دیش کو مضبوط اور ایک متحد دیش دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کی بڑھتی دادا گری کو چیک کرنے کے لئے بھی ایک مضبوط روس کی ضرورت ہے اور پتن یہ کام کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دیش کے اندر پیدا ناراضگی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ جنتا کی جائز مانگوں پر توجہ دیں۔ روس کی عوام نے جو بھروسہ پتن پر ظاہر کیا ہے امید ہے کہ وہ اس پر کھرا اتریں گے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Russia, Valadimir Putin, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟