ہندوستانی سنیما کا 100 سالہ سفر



Published On 8 May 2012
انل نریندر

ہندوستانی سنیما اپنے صدی برس میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان 100 برسوں میں ہندوستانی سنیما نے اپنی عالمی پہچان ہی نہیں بلکہ عالمی بازار بھی بنالیا ہے۔ پچھلے100 برسوں میں بالی ووڈ نے بایو اسکوپ سنگل اسکرین تھیٹر سے لیکر ملٹی کمپلیکس تک کا سفر طے کیا ہے۔ خاموش فلموں کے دور سے نکل کر آج ہم فکشن کو بھی حقیقت جیسا دکھانے والی فلموں کے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔30 کی دہائی میں دور ہٹو اے دنیا والو، ہندوستان ہمارا ہے، جیسے جوشیلے اور دیش بھکتی کے گیت آنے لگے تو انگریز حکومت ہل گئی اور اسے سمجھ میں آیا کہ فلم عوام کو سیدھا متاثر کرتی ہے۔ تبھی سے فلموں کو سینسر کرنا شروع کیا گیا اور آج بھی ان فلموں پر سینسر کی قینچی چلتی ہے۔ پھرآئی آزادی اور 1947ء کے بعد سے شروع ہوا رومانی فلموں کا دور۔ رومانی فلمیں آج بھی ہٹ ہیں۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ جب دیش میں دہشت کا دور آیا تو ہم نے دیکھا دہشت سے متعلق فلموں کی باڑھ آگئی ۔ فلم بنانے کی تکنیک میں بھی زبردست بہتری آئی ہے۔1913ء میں ریلیز ہوئی دادا صاحب پھالکے کی مراٹھی فلم ''راجہ ہریش چندر'' پہلی فیچر فلم ہے جو پوری طرح سے ہندوستانی تکنیشینوں نے بنائی۔ ایک وقت یہ بھی تھا جب خاتون کرداروں کے لئے کوئی عورت تیار نہیں ہوا کرتی تھی تو انہیں مردوں نے نبھایا۔ 14 مارچ 1931ء کو ریلیز ہوئی کمرشل مووی ٹون کے بینر تلے بنی ''عالم آرا'' پہلی انڈین فلم ہے جس میں ناظرین نے کرداروں کو ایکٹنگ کرنے کے ساتھ بولتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس دوران فلموں کا کاروبار بڑھتا چلا گیا۔ آج حالت یہ ہے کہ ہندوستانی فلموں کا گلوبل پریمیر ہورہا ہے اور ایک ساتھ سینکڑوں ڈیجیٹل پرنٹ تیار کئے جاتے ہیں اور آمدنی کروڑوں میں ہے۔ ایک ہفتے میں ہی کئی فلمیں اپنی ساری لاگت پوری کرلیتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب دادا صاحب پھالکے کی ہدایت میں بنی ''لنکا دہن'' پہلی ہندوستانی فلم تھی جو کسی سنیما پر مسلسل 23 ہفتے چلی تھی۔ بچوں کے لئے مخصوص فلموں میں بھی اس دوران بڑی ترقی ہوئی ہے۔ وی شانتا رام کی ہدایت میں1930ء میں بنی 'رانی صاحبہ' پہلی بچوں کی پسند پر بنی فلم ہے۔
دیش کے تازہ حالات سے بالی ووڈ اچھوتا نہیں رہا۔ کرپشن، سیاست پر بھی فلمیں بننے لگی ہیں۔ کرپٹ نیتاؤں کا کرپٹ پولیس والوں، انڈر ورلڈ سے کنکشن پر بنی فلمیں جنتا میں بہت مقبول ہوئیں۔ ایک دور ایسا بھی تھا جب اینگری ینگ مین ناظرین کو خوب بھاتا تھا۔ کئی ایکٹروں کی تو اس ساکھ نے انہیں کافی مقبول کردیا۔ وہ سب سے مقبول زمرے میں کئی سال تک بنے رہے۔تھیٹروں نے بھی اس سال لمبا سفر طے کیا ہے۔ اب کھنڈر میں تبدیل ہورہا پرانی دہلی کا ناولٹی تھیٹر 1907 ء میں ایلکسٹن ٹالکیز نام سے شروع ہوا تھا۔ آج ہر میٹرو شہر میں ملٹی پلیکس تھیٹر بن چکے ہیں۔ ایک وقت تھا جب دو روپے کا ٹکٹ ہوا کرتا تھا آج ملٹی پلیکس میں 400 سے 700 روپے سے کم کا کوئی ٹکٹ نہیں ہے۔ آج فلم صنعت ایک بہت بڑی صنعت بن چکی ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Indian Cinema Industry, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟