بھاجپا کی جیت نہیں ووٹ تو مہنگائی اور کرپشن و گھوٹالوں کے خلاف ہے



Published On 19 March 2012
انل نریندر
دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت نے ایم سی ڈی کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے کی جو چال چلی تھی وہ الٹی پڑ گئی ہے۔ بھاجپا نے تینوں کارپوریشنوں میں کانگریس کوہرادیا ہے۔ نارتھ ایسٹ میں بھاجپا اکثریت میں آگئی ہے جبکہ جنوبی دہلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں یہ ہی کہوں گا کہ یہ کانگریس کے خلاف ایک منفی ووٹ ہے۔ اس میں بھاجپا کے کارناموں کے سبب ووٹ نہیں پڑا یہ تو لوگوں کا کانگریس سے غصے کی علامت کا ووٹ ہے۔ جنتا مہنگائی، کرپشن، گھوٹالوں سے تنگ آچکی ہے اور چونکہ دہلی میں سرکار بھی کانگریس کی ہی ہے اور مرکز میں بھی اسی پارٹی کی حکومت ہے اس لئے جنتا نے کانگریس کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ یہ ووٹ شیلا دیکشت کی حکومت کے خلاف بھی ہے اور ساتھ ہی منموہن سنگھ حکومت کے بھی ہے۔ شیلا جی نے تو سوچا تھا کہ ایم سی ڈی کو تین حصوں میں بانٹ کر بی جے پی کو ہمیشہ کے لئے کمزور کردیں گی لیکن ان کا داؤ الٹا پڑ گیا اور ان کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ کچھ لوگ اسے شیلا دیکشت کے خلاف ریفرنڈم بھی مان رہے ہیں۔کانگریس کہہ سکتی ہے کہ ہمارے اندر بہت پھوٹ تھی اور باغیوں نے ہمیں ہروادیا لیکن پھوٹ تو بھاجپا میں بھی آپ سے زیادہ تھی ، باغی تو وہاں بھی کھڑے تھے آپ کے تو کئی سرکردہ لیڈروں کو دھول چٹا دی گئی۔ لیڈر اپوزیشن جے کشن شرما نجف گڑھ سے ہار گئے۔ پچھلے تین بار سے کونسلر رہے کانگریس کے سینئر لیڈر چودھری اجیت دلشاد کالونی سے ہار گئے۔ تین بار کونسلر رہیں کانگریس کی انیتا ببر تلک نگر سے بی جے پی کی امیدوار ریتو ووہرا سے ہار گئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ دونوں کانگریس اور بی جے پی کے باغی زیادہ تر ہارے لیکن انہوں نے ووٹ کاٹنے کا کام کیا ہے۔ مشرقی دہلی کا چناؤ کانگریس کے لئے خاص اہمیت اور وقار کا سوال تھا اس لئے شیلا دیکشت، سندیپ دیکشت ، جے پرکاش اگروال، ڈاکٹر اشوک والیہ، اروندر سنگھ لولی سبھی کا وقار داؤ پر تھا۔ محترمہ شیلا دیکشت نے خود تو ہار پر کچھ رائے زنی نہیں کی لیکن ان کے صاحبزادے اور مشرقی دہلی سے ممبر پارلیمنٹ رہے سندیپ دیکشت نے مہنگائی اور ٹو جی جیسے گھوٹالوں کو ہار کا سبب مانا ہے۔ انہوں نے کہا سی اے جی کی رپورٹ اور انا ہزارے کی تحریک سے ایسا ماحول بنا کے لوگوں کو لگا کہ کانگریس ہی ساری غلطیوں کے لئے ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے لوکل اشوز کو سامنے رکھا جبکہ پورے دیش اور دہلی میں ایسا ماحول تھاکہ بی جے پی نے مہنگائی اور ٹوجی گھوٹالے پر توجہ دی۔ کانگریس کے وزیر راجکمار چوہان بیان دیتے ہیں کہ اگر مہنگائی بڑھی ہے تو تنخواہیں بھی بڑھی ہیں۔ یہ بیان جنتا کو پسند نہیں آیا۔ پوری چناؤ مہم میں بھاجپا نے کہیں بھی ایم سی ڈی میں پچھلے پانچ سال کے اپنے ریکارڈ پر ووٹ نہیں مانگا۔ اس نے مرکزی سرکار اور شیلا سرکلار کو نشانے پر رکھا۔ اس سے بھی یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر بھاجپا جیتی ہے تو اپنے کارناموں سے نہیں بلکہ مرکز اور دہلی میں کانگریس کی سرکاروں کے خلاف منفی ووٹ پڑنے سے جیتی ہے۔ کیونکہ ان انتخابات میں مقامی سرکردہ لیڈر بھی اثر رکھتے ہیں اس لئے جنتا نے کئی مقامات پر دونوں بڑی پارٹیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امیدوار کی شخصیت کو ووٹ دئے۔ تبھی تو 37 آزاد امیدوار جیت کر آئے۔ دہلی میونسپل کارپوریشن میں بھاجپا کی جیت کا سہرہ نوجوان پردیش صدر وجیندر گپتا کے سر بندھتا ہے۔ انہوں نے جی توڑ محنت کی ہے۔ اس کامیابی سے کافی خوش پارٹی صدر نتن گڈکری نے کہا کہ یہ نتیجے کانگریس کی عوام مخالف جذبے کا نتیجہ ہیں۔ پکا ثبوت اور ان کی پارٹی آنے والے دہلی اسمبلی اور لوک سبھا چناؤ میں بھی کامیاب ہوگی۔ دہلی اسمبلی کا چناؤ تقریباً18 ماہ بعد ہونا ہے اور لوک سبھا کے انتخابات 2014ء میں ہونے ہیں۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مرکزی حکومت اب بھی جاگے گی؟ یہ چناؤ ایک طرح سے مرکز کی پالیسیوں ، کارگزاریوں اور گھوٹالوں پر تھا۔
اس حکومت کو جنتا کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور اپنی عوام مخالف پالیسوں پر گامزن رہی ہے۔ جنتا کے پاس اپنا احتجاج کرنے کا ایک واحد ہتھیار اپنا ووٹ ہے اور اس نے کانگریس کے خلاف ووٹ دے کر اپنی ناراضگی اور تبدیلی کے جذبے کو صاف طور سے ظاہر کردیا ہے۔ باقی ان چناؤ نتائج کا تجزیہ تو کئی دنوں تک چلتا رہے گا۔
Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Elections, MCD, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟