طالبانی حملے سے کانپ گیا افغانستان



Published On 18 March 2012
انل نریندر
طالبان نے کابل میں افغانستانی پارلیمنٹ اور کئی ممالک کے سفارتخانے پر حملہ کرکے یہ اشارہ دیا ہے کہ طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا ہے۔ یہ حملہ طالبان کی طاقت کا احساس تو کراتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ افغانستان کا مستقبل اندھیرے میں ہے۔ طالبان کے ارادے نہایت خطرناک ہیں۔ اسامہ بن لادن کی برسی سے17 دن پہلے طالبان نے دنیا کو چیلنج کیا ہے۔ خودکش حملہ آوروں نے ایتوار کو افغانستان کی راجدھانی کابل میں امریکہ، برطانیہ ، جرمنی اور روس کے سفارتخانوں پرحملے کئے اور ساتھ ہی نیشنل اسمبلی میں گھسنے کی بھی کوشش کی۔ اس کے علاوہ تین شہروں میں بھی حملے ہوئے۔ کل 11 مقامات پرحملے کئے گئے ان میں48 لوگ مارے گئے جن میں19 آتنک وادی بھی شامل ہیں۔ آتنک وادیوں میں راکٹ ،دستی بم ، مشینی بندوقوں سے فائرنگ کی۔ دن کے تین بجے شروع ہوئی یہ گولہ باری کچھ جگہوں پر شام تک چلتی رہی۔ 2001 کے بعد اسے کابل میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ بتایا جارہا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملوں کی ذمہ داری لیتے ہوئے کہا یہ آغاز ہے حملے کی تیاری ایک ماہ سے جاری تھی۔ آنے والے وقت میں اور حملے ہوں گے۔ان حملوں کے پیچھے حقانی گروپ کا ہاتھ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ 1994ء میں سرگرم اس گروپ کو پاکستان سے چلایا جاتا تھا۔ امریکہ کئی بار پاکستان کو حقانی نیٹ ورک پر لگام دینے کی ہدایت دے چکا ہے۔ گروپ کی کمان مولوی ذکاء الدین حقانی اور اس کے بیٹے سراج الدین حقانی کے ہاتھوں میں ہے۔ تنظیم طالبان سے ملی ہوئی ہے۔حقانی گروپ پر اس لئے شبہ کیا جاتا ہے کیونکہ گذشتہ ستمبر میں امریکی سفارتخانے کو اسی نے نشانہ بنایا تھا۔ دراصل پچھلے دنوں امریکی حکام کی طالبان کے ساتھ بات چیت پٹری سے اترجانے کے بعد سے ہی افغانستان میں حملوں کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ 2014ء میں امریکہ اور اس کی ساتھی فورسز افغانستان سے کوچ کرنے کی تیار میں ہیں۔تشویش کا موضوع یہ ہے کہ تقریباً 1 لاکھ25 ہزار نیٹو فوجیوں کی موجودگی کے باوجود حامد کرزئی حکومت راجدھانی کابل کی سلامتی میں اہل نہیں نظر آتی۔
ظاہر ہے کہ طالبان کا حوصلہ اس لئے بھی بڑھا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ امریکہ اور اس کی ساتھی ممالک کی فوجیں افغانستان میں چند دنوں کی مہمان ہیں۔ جاتے جاتے امریکی فوجی بھی ایسی حرکتیں کررہے ہیں جس سے آگ اور زیادہ بھڑکے۔ قرآن شریف کو جلانا، ایک امریکی فوجی کے ذریعے 16 بے قصور افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی طالبان کو تقویت اور عوامی حمایت ملی ہے۔ پچھلے دنوں حامد کرزئی نے غیر ملکی فوجیوں کو دیہی علاقوں کو خالی کرشہر میں اپنے کیمپوں میں لوٹ جانے کو کہا تھا۔ کابل کی مانگ اب یہ بھی ہے کہ امریکی فوجی افغانستان سے واپسی کی تیاری پہلے ہی شروع کردیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کرزئی کس وجہ سے ایسا کررہے ہیں۔ افغانستان کے موجودہ پس منظر سے ہمیں تشویش ہونی چاہئے کہ یہ راحت رسانی کی تازہ کارروائی سے ہندوستانی سفارتخانہ اچھوتا رہا ہے لیکن یہ صحیح وقت ہے جب بھارت حکومت اس پر سنجیدگی سے غور کرے کے افغانستان کی باز آبادکاری میں وہ جو اربوں روپے خرچ کررہا ہے اس سے بھارت کو کیا ہاتھ لگنے والا ہے؟
Afghanistan, Anil Narendra, Daily Pratap, Taliban, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟