بہو کو مشترکہ گھر میں رہنے کا حق نہیں !

دہلی ہائی کورٹ نے ایک اہم ترین فیصلے میں ان بزرگوں کو بڑی راحت دلائی ہے جن کی وجہ سے گھر کا ماحول خراب ہوتاہے ۔ جس سے بیٹے -بہو کی کچ کچ سے خلل پڑتاہے ۔ ہائی کورٹ نے صاف کہا کہ گھریلو تشدد انسداد ایکٹ کے تحت بہو کو مشترکہ گھر میں رہنے کا حق نہیں ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ بہو بیٹے میں جھگڑا ہوتا رہے تو بزرگ ماں باپ کو اختیار کہ وہ بہو کو گھر سے علیحدہ کرسکتے ہیں ۔عدالت نے یہ رائے زنی سسرال کے بزرگوں (ساس سسر ) کی جانب سے بہو کو مشترکہ گھر سے بے دخل کیا جا سکتاہے تاکہ وہ پر امن زندگی گزار سکیں ۔سا س سسر کو سکون سے زندگی جینے کا حق ہے۔ جسٹس یوگیش کھنہ نے کہا کہ گھریلو تشدد ایکٹ کی دفعہ 19کے تحت رہائش کا حق مشترکہ گھرمیں رہنے کا ایک زبردستی حق نہیں ہے۔خاص کر ان معاملوں میں جہا ں بہو اور سال سسر کے درمیان مقدمہ چل رہا ہو ۔ عدالت نے بہو کی جانب سے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی کو نپٹارا کرتے ہوئے یہ رائے زنی کی اس کا کہنا تھا کہ بہو کو سسرا ل کے مشترکہ گھر میں رہنے کا حق نہیں دیا تھا۔عدالت نے اپنے فیصلے میںکہا کہ ایک مشترکہ گھر کے معاملے میں پروپرٹی کے مالک پر اپنی نہو کو گھر سے بے دخل کرنے کو لیکر کوئی پابندی نہیںہے۔ جہاں تک موجودہ کیس کا سوال ہے یہ تو بہتر اور مناسب ہوگاکہ عرضی گزار بہو کو اس کی شادی برقرار رہنے تک رہائش کیلئے متبادل گھر کا انتظا م کیا جا ئے۔ عدالت نے کہا معاملے میں بچاو¿ فریق سینئر سیٹزن ہیں وہ پر امن زندگی جینے اور بیٹے بہو کے درمیان ازدواجی جھگڑ ے سے وہ دور رہنے کے حقدار ہیں۔ جج کا کہنا تھا کہ میری رائے ہے کہ دونو فریقین کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں ا س لئے زندگی کے آخری دور ساس سسر کیلئے عرضی گزار بہو کے ساتھ رہنا منا سب نہیں ہوگا۔ اس لئے بہو بیٹے کو کوئی متبادل گھر مہیا کرا دیا جائے ۔عدالت نے سسر کی جاب متبادل گھر مہیاکرانے پر حامی بھر لی ہے ۔سسر نے 2016میں نچلی عدالت کے سامنے اس بنیا د پر گھر پر قبضے کیلئے مقدمہ کیا تھا ۔کیوں وہ پروپر ٹی کے اصل مالک ہیں۔ عرضی گزار شوہر ان کا بیٹا کسی دوسرے جگہ رہتاہے وہ اپنی بہو کے ساتھ رہنا چاہتا۔ وہیں بہو نے کہا تھا کہ پتی خاندان کی مشترکہ سرمائے کے علاوہ آبائی پروپرٹی کی بکری سے ہوئی آمدنی سے یہ گھر خریدا گیا ۔ لہذا اسے بھی اس گھر میں رہنے کا حق ہے۔ نچلی عدالت نے بہو کے اس دعوے کو خارخ کر دیا تھا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟