دانشوروں کا فرض ہے سرکار کے جھوٹ کا پردہ فاش کریں!

سپریم کورٹ کے جج ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ سماج کے دانشوروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ سرکار کے جھوٹ کا پردہ فاش کریں سنیچر کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سے ایک لیکچرمیں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک جمہوری دیش میں سرکاروں کو ذمہ دار ٹھہرانا اور جھوٹ پر جھوٹ اسٹڈیز و فرضی خبروں سے بچاو¿ کرنا بہت ضروری اور اہم ترین ہے جسٹس سی ایم چھاگڑا یادگاری میموریل لیکچر دیتے ہوئے شہریوں کے اقتدار سے سچ بولنے کا حق کے موضوع پر ایک پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے جسٹس چندر چوڑ نے کہا سچ کے لئے صرف سرکار بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور غیر سنجیدہ سرکاریں اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ پر مسلسل منحصر رہنے کے لئے جانی جاتی ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے ملکوں میں کوویڈ 19-سے بیمار یا اموات کی ڈیٹا میں ہیرا پھیری کرنے کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے اس لئے سماج کے با اثر دانشور لوگوں کو سرکار کو جھوٹ کا اجاگر کریں ۔ ان کا تبصرہ کو ماہرین و رضا کاروں اور صحافیوں کے ذریعے ظاہر کی گئی تشویشات کے پس منظر میں سرکاروں کے خلاف دیکھا جا رہا ہے سرکاروں کے ذریعے انفیکشن کے پھیلاو¿ کو چھپانے کے لئے کوویڈ اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کی گئی ہو سکتا ہے انہوں نے کہا جمہوریت میں سرکاریں سایسی اسباب سے جھوٹ نہیں بول سکتیں جسٹس چند ر چوڑ نے فرضی نیوز کو لیکر اہم رائے زنی کی انہوں نے کہا فیک نیوزن کا چلن بڑھتا جا رہا ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگانزیشن نے اسے کوویڈ وبا کے دوران پہچانا اسے انفوڈیرک کہا لوگوں میں سن سنی خیز خبروں کی طرف راغب ہونے کا ٹرینڈ ہوتا ہے ایسی خبریں اکثر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں میڈیا کی غیر جانب داری یقینی کرنی چاہئے ۔ ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا پر جھوٹ کا بول بالا ہے جسٹس چندر چوڑ نے اعتراف کیا کی ٹویٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو جھوٹے کنٹینٹ کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو چوکس رہنا چاہئے اور پڑھنے اور بحث کرنے و الگ الگ رائے کا اعتراف کرنے کے لئے کھلا ذہن رکھنا چاہئے پوسٹ ٹویٹ دنیا کی بھی باتیں کریں ہیں جس میں ہماری سچائی بنام آپ کی سچائی کے درمیان ایک مقابلہ ہے اور سچ کو نظر انداز کرنے کا ٹرینڈ ہے ہم صرف وہی اخبار پڑھتے ہیں جو ہمارے خیالات اوربھروسے پر میل کھاتے ہیں انہوں نے کہا ہم ان لوگوں کے ذریعے لکھی گئی کتابوں کو نظر انداز کرد یتے ہیں جو ہمارے نظریہ اور رائے سے متعلق نہیں ہے ہم اس ٹی وی چینل کو نہیں دیکھتے جہاں کسی کی رائے الگ ہوتی ہے ہم حقیقت میں اچھائی کی پرواہ نہیں کرتے ۔ جج صاحب نے اسکولوں اور کالج میں پازیٹو ماحول بنانے کی بھی اپیل کی جس میں طالب علم جھوٹ سے سچائی کو اپنانا سیکھیں اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے سوال کریں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟