نااتفاقی کے نظریات آتے ہیں جوکسی سے نہ دبیں!

ٹول کٹ معاملے میں گرفتار ماحولیاتی رضاکار دیشا روی کو دہلی کی ایک عدالت نے ضمانت پر چھوڑ دیا ہے ایڈیشنل و شیشن جج دھرمیندر رانا نے کسان تحریک کی حمایت کرنے والی دیشا روی کو ضمانت دیتے وقت سخت تبصرے کئے انہوں نے اپنے حکم میں کہا کہ ٹول کٹ میں ملک سے بغاوت جیسی کہیں کوئی بات نہیں ہے ۔26جنوری کے تشدد معاملے میں گرفتار لوگوں کی تصدیق نہیں ہوئی ہے سرکار سے نا اتفاقی رکھنا جرم نہیں ہے ۔شانتنو کے 26جنوری کو دہلی آنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔نظریات میں نا اتفاق یا ان سے میل نا کھانا نظریات میں کوئی ایسی کوئی بات نہیں ہے اور یہاں تک کہ اعتراض کی پالیسیوں میں بھی لانے کے پہچانے ہوئے اور آئینی ایک ٹول ہے ۔جج دھرمیندر رانا نے اپنے فیصلے میں کہا بڑبولی عوام مضبوط جمہوریت کا اشارہ ہے ۔ایک لاچار اور بیحد نرم گو جنتا کے مقابلے میں بیدار عوام ایک صحت مند اور مضبوط جمہوریت کی علامت ہے ۔بھارت کی پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کبھی بھی الگ الگ نظریات کی مخالف نہیں رہی ہے ۔ریگوید میں ایک شلوک میں بھی لکھا گیا ہے کہ ہمارے پاس چاروں طرف سے ایسے فلاحی خیالات آتے ہیں جو کسی سے نا دبے ، انہیں کہیں سے بھی محروم نہیں کیا جا سکے ۔اور نامعلوم موضوعات کو ظاہر کرنے والے ہوں صرف زبانی دعوے کے علاوہ میرے نوٹس میں ایسا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا جو اس دعوے کی تصدیق کرتا ہو کہ ملزم یا ان کے ساتھی یا سازش کنندہ کی سازش کے بعد کسی بھی ہندوستانی سفارت خانہ میں کسی طرح کا کوئی جھگڑا ہوا ہے جج موصوف نے فیصلے میں کہا کہ دیشار وی کا پی جے ایف کے خالصتانی حمایتی ورکروں سے رشتہ کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے ۔اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا تعلق پی جے ایف سے ہے ۔جج دھرمیندر رانا نے دیشا کو ایک لاکھ کے پرسنل باو¿نڈ پر ضمانت دے دی ۔انہوں نے کہا ریکارڈ میں کم اور ادھورے ثبوتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے مجھے بائیس سالہ لڑکی جس کی کوئی جرائمانہ تاریخ نہیں ہے وہ ضمانت کے قواعد توڑے گی اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں مل رہا ہے ۔جج موصوف نے کہا نام نہاد ٹول کٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے کسی طرح کا تشدد بھڑکانے کی سازش نہیں کی گئی آج کے ماحول میں ججوں کا رول اور ان کا برتاو¿ اورول پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں ۔ایسے میں جج دھرمیندر رانا نے اپنے فرائض کی بہادری سے تعمیل کر لوگوں میں عدلیہ سسٹم کے تئیں بھروسہ جتایا ہے ۔دیشا روی نے عدالت میں کہا کسانوں کے مظاہرے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانا ملک سے بغاوت ہے تو میں جیل میں ہی ٹھیک ہوں دیشا کے وکیل نے کہا یہ دکھانے کے لئے کوئی ہتھیار نہیں ہے ۔کہ کسانوں کے مظاہرے سے جڑا ٹول کٹ 26جنوری کے تشدد کے لئے ذمہ دار ہے ۔عدالت کے سامنے ایسا کوئی ثبوت نہیں پیش کیاگیا جس سے ثابت ہو دیشا روی علیحدگی پسند نظریات کی حمایتی ہے اور ان کے وممنوعہ تنظیم سکھ فار جسٹس کے درمیان کسی طرح کا کوئی رشتہ ہے جج نے کہا بھارت کے آئین کی دفع 19کے تحت عدم اتفاقی کا حق کے طور پر آزاد ہوں اور میرے نظریے سے بولنے اور اظہار رائے کی آزادی میں عالمی ناظرین کی تلاش کا بھی ھق شامل ہے اور کمیونیکیشن پر کوئی جغرفیائی رکاوٹ نہیں ہے ۔شہری کو اخلاقی حق فراہم کرنے اور کمیونیکیشن حاصل کرنے میں سپریم وسائل کا استعمال کرنے کا اخلاقی حق ہے جب تک قانون کے چاروں کونوں کے تحت اس کی اجازت ہو اور جیسا کہ بیرونی ممالک میں ناظرین تک پہونچ ہو ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟