حریفوں کو چپ کرانے کیلئے بغوات قانون نہیں لگا سکتے !

دہلی ایک عدالت نے حال ہی میں کہا ہے بلوائیوں کے بہانے حریفوں کو چپ کرانے کیلئے بغوات قانون کا استعمال نہیں کیا جاسکتا عدالت نے ان دو لوگوں کو ضمانت دے دی جن پر کسان تحریک کے دوارن فیس بک پر فرضی ویڈیو اپلوڈکرنے کا الزام تھا۔پولس نے بغوات کے الزام میں مقدمہ درج کیا اڈیشنل سیشن جج جسٹس دھرمیندر رانا نے دیوی لال بدرک اور سروپران کو ضمانت دیتے ہوئے کہا امن نظام بنائے رکھنے کیلئے سرکار کے ہاتھ میں بغوات قانون ایک طاقتور اوزار ہے ۔ حالانکہ مجھے شبہ ہے کہ ملزم کے خلاف دفعہ 124(A)کے تحت کاروائی کیجاسکتی ہے ۔ جج نے 15فروری کو دیئے گئے اپنے حکم میں کہا کہ حالانکہ بلوائیوں کا منھ بند کرنے کے بہانے اپنے حریفوں کو خاموش کرنے کیلئے اسے لاگو نہیں کیا جا سکتا ۔ ظاہری طور پر یہ قانون ایسے کسی بھی عمل کی ممانعت کرتا ہے جس میں تشدد کے ذریعے پبلک امن کو بگاڑنے اور گڑبری پھیلانے کی نیت ہو در اصل دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ سرکار نے پچھلے دو برسوں میں اوسطاً روزانہ نو لوگوں ملک بغاوت کہتے پایا لیکن کوٹ میں ان میں سے ہر ایک سو میں سے صرف دو ہی پر الزام طے ہوپایا بغاوت کی دفعہ 124A(آئی پی سی) کے تحت جن لوگوں پر پولس نے مقدملے کیئے ان میں سے زیادہ تر شہری ترمیم قانون کے خلاف تحریک میں شامل تھے ۔ سپریم کورٹ کی کئی آئینی بینچوں نے صاف کہا ہے چاہے کتنے ہی سخت الفاظ میں سرکار کی ملامت کیوں نہ کی جائے اس حرکت کو ملک سے بغاوت نہیں مان سکتے لیکن شاید سرکار کی تشویس اس بارے میں کچھ ہی ہے ۔ جس میں جمہوریت کا سب سے بڑا وردان اظہار رائے کی مختاری اور اس کے تحت سرکار کی تنقید بھی حکمراں فریق کو ملک کی بغاوت لگتا ہے ۔ جہاں 19سالہ گریٹا تھن برگ اور 23سالہ دشا روی انہیں ملک دشمن دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ کسان آندولن کا ہر حمایتی آندولن یا دشمن لگنے لگتا ہے ۔دراصل انٹرنیٹ کے اس دور میں نظریات کی حد دیش سے پرے بھی جاتی ہے اور وہاں بھارت کا انفورسمینٹ ڈائریکٹریٹ ، انک ٹیکس محکمہ یا پھر پولس کا ڈنڈا کام نہیں کرتا۔ سرکار پر الزام لگائے جارہے ہیں کہ کسان آندولن سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے ٹول کٹ سازش کا ایک ہوا کھڑا کر رہی ہے کیونکہ دیش میں پچھلے کچھ برسوں ایک خاص قسم کی قومیت کی ایک نیا نظریہ چل رہا ہے لحاظہ حکمراں فریق یہ بتانے میں لگا کہ ہر احتجاج کے پیچھے غیر ملکی طاقتیں ہیں 1970کی دھائی سے پہلے اندرا گاندھی کی ہر تقریر میں بھی یہی تکیہ کلام رہتا تھا ۔ آر کے لکچھمن کا ایک کارٹون موضوع بحث رہا جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک خاتون لیڈر کچھ ننگے بھوکے دیہاتیوں کے درمیان کہ کیسے غیر ملکی طاقتیں دیش کی خوشحالی سے جل رہی ہیں آج بھی کسانوں کی دکھ درد سننے کی جگہ ان میں خالستانی اور غیر ملکی ہاتھ ہونے کی وجہ تلاشی جا رہی ہے بیرونی ممالک میں بہت سے ہندوستانیوں سمیت سرکار کی اس رویے کی مذمت کی ہے ۔ برطانیہ کے ایک اخبار میں دشا روی کی گرفتاری پر اظہار رائے آزادی پر حملہ بتایا ہے جبکہ کئی دیشوںمیں وہاں کے ممبران پارلیمنٹ اور سینٹروں نے بھارت میں کسان آندلون کو دبانے والی کوشش مانا ہے کیا یہ سبھی ٹول کٹ سازش کے حصے ہیں ؟دیش بھر میں سخت قوانین کا بیجا استعمال صرف سرکار کو نہیں استعمال کرنا چاہئے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟