20سال کاٹی جیل ،آخر میں ہوئے بری!

الہ آباد ہائی کورٹ نے بدفعلی کے ایک معاملے میں 20سال جیل میںبند ملزم کو بے قصور قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا اور حیرانی جتائی ملزم پچھلے بیس برسوں سے جیل میں ہیں اس کے باوجود سرکار نے عمر قید کی سزا پائے قیدیوں کو 14سال میں رہا کرنے کے قانون کی تعمیل نیہں کی یہ حکم جسٹس ڈاکٹر کے جے ٹھاکر اور جسٹس گوتم چودھری کی ڈویزن بنچ نے للت پور کے ایک شخص کی جیل اپیل کو سماعت کیلئے قبول کر لیا 16سالہ وشنو پر 16دسمبر 2000 میں ایک پشماندہ عورت سے بدفعلی کے الزام میں ایف آئی آر درج کی تھی اور اسے دس سال بعد عمر قید کی سزا سنائی ملزم 2000سے جیل میں ہے عدالت میں ملزم کی طرف سے اپیل دائیر کی گئی تھی کہ وہ 20سال سے جیل میں اس لئے جلد سماعت کی جائے عدالت نے پایا بدفعلی کا الزام ثابت نہیں ہوا میدیکل رپورٹ میں زبردستی کرنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں تھے متاثرہ عورت حاملہ تھی ایسے کوئی نشان نہیں جس سے یہ کہا جا سکے کہ اس سے زبردستی کی گئی رپورٹ میں بھی شوہر اور سسر نے واقع کی تین دن بعد رپورٹ لکھوائی متاثرہ نے اپنے بیان میں اعتراف بھی کیا ہے ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا کاٹ رہے قیدیوں کے 14سال پورے ہونے کے بعد رہائی کے لئے بنے قانون کی تعمیل پر ریاستی حکومت پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ یہ بے حد افسوسنا ک ہے کہ بنا کسی قصور کے قیدی جیل میں بند ہے ۔عدالت نے قانون سکریٹری سے کہ سبھی جیلوں میں بند 10سے 14سال کی سزا کاٹ چکے قیدیوں کی رہائی کی منظوری کی سفارش سرکار کو بھیجیں ۔بھلے ہی ان کی سزا کی اپیل زیر سماعت ہو ۔سوال یہ ہے 16سالہ لڑکے وشنو نے جو 20سال جیل میں سزا کاٹ چکا اس کا ذمہ دار کون ہے اگر بدفعلی معاملوں میں 20-20سال لگ جاتے ہیں تو ان کے باقی مقدمون کا کیا حال ہوگا ۔کیا سرکار وشنو کو معاوضہ دے گی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟