سابقہ کے نظریات اسے نا اہل نہیں بناتے !

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بووڑے نے منگلوار کو کہا کہ محض اس لئے کہ ایک شخص نے پہلے پہلے معاملے پر خیالات ظاہر کئے ہیں ۔یہ کسی کمیٹی یا ممبر ہونے کے لئے اہل نہیں بناتا ۔چیف جسٹس نے یہ بات عدالت والی چار ممبروں کی کمیٹی کے بارے میں کہی ہے ۔قابل ذکر ہے کہ چاروں ممبران نے کسان یونین کی حمایت میں بیان دئیے تھے کسانوں کو ان کے ناموں پر اعتراض ہے ۔انہوں نے چونکہ کسان یونین کی حمایت کی ہے اس لئے ان سے ہمیں انصاف نہیں مل سکتا ۔چیف جسٹس نے کہا کسی کمیٹی کے ممبر جج نہیں ہیں اور وہ اپنی رائے بھی بدل سکتے ہیں اس طرح صرف اس لئے کہ کسی شخص نے کسی معاملے پر کچھ خیالات ظاہر کئے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک کمیٹی میں مقرر نہیں کیا جا سکتا ۔کورٹ کا یہ ریمارکس کسانوں کے احتجاج پر کمیٹی کی تشکیل تنازعہ کے سلسلے میں جائز مانی جارہی ہے ۔مرکزی سرکار اور کسانوں کے درمیان تعطل کو دور کرنے کے لئے بڑی عدالت کے ذریعے قائم ممبری کمیٹی میں وہ ممبر بھی شامل ہیں جنہوں نے زرعی قوانین کے عمل کی حمایت میں کھلے نظریات ظاہر کئے ہیں کمیٹی کی پہلی میٹنگ کے بعد ایک ممبر کا کہنا ہے کہ ہم کسی فریق سرکار کی طرف سے نہیں ہیں ہم بڑی عدالت کی طرف سے ہیں ۔اس لئے کسان انجمنوں کے لیڈروں سے درخواست کرتے ہیں بات چیت کے لئے آگے آئیں کمیٹی کے ممبر اور و شیت کاری سنگھٹھن کے چیئرمین انل دھنون نے کہا مختلف مفاد کاروں سے زرعی قوانین پر بحث کے دوران ممبر اپنی نجی رائے کو ہاوی نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے 21جنوری کو کسانوں و دوسرے فائدہ اٹھانے والوں سے پہلے مرحلے کی بات چیت کی ہے ۔آندولن کررہے کسان انجمن کے سامنے آنے سے منع کررہے ہیں ۔ ان کو بات چیت کے لئے بلانا ایک بڑی چنوتی ہوگی ۔کمیٹی کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ کسان بات چیت میں شامل ہوں جس میں مسئلے کا حل نکل سکے اس میٹنگ میں دھنول کے علاوہ زرعی اقتصادی ماہر اشوک گلاٹی اور پرمود کمارجوشی بھی شامل ہوئے انل دھنول کا کہنا ہے کہ وہ کمیٹی مرکز و ریاستی حکومتوں کے علاوہ کسانوں و سبھی فیض یافتگان کا زرعی قوانین پر رائے جاننا چاہتی ہے ایک سوال کے جواب میں دھنول نے کہا کہ بھوپندر سنگھ مان کی جگہ پر کسے بنایا جائے گا یہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے ۔کمیٹی کے ممبر اشوک گلاٹی نے مزید کہا کمیٹی میں سبھی ممبر برابر ہیں انہیں کمیٹی کا صدر مقرر کرنے کا امکان کو خارج کر دیا وہیں پرمود کمار جوشی نے کہا کہ ہماری رائے الگ ہو سکتی ہے ،لیکن جب اس طرح کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو ہمیں منصفانہ طریقہ سے کام کرنا ہوتا ہے یہ دیکھنا اب یہ ہے کہ کسان سنگھٹھن اب اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہیں یا نہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟