امریکہ میں 70سال بعد کسی خاتون کو دی گئی سزائے موت

امریکہ میں تقریباً 70برس کے بعد پہلی مرتبہ کسی خاتون قیدی کو موت کی سزا دی گئی ہے ۔52سالہ لیزا مونڈ گوپی کو سال 2007میں ایک گھناو¿نے جرم کے معاملے میں قصوووار پایا گیا تھا اس معاملے میں فیڈرل عدالت نے سزائے موت سنائی تھی انہیں امریکہ کی ریاست انڈیانہ کی جیل میں زہر کا انجیکشن دیا گیا اس سے پہلے امریکی سپریم کورٹ نے ان کی سزا پر روک لگانے کی اپیل خارج کر دی تھی اس مقدمہ نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کی اس لئے بھی راغب کی کیوں کہ لیزا کے وکیل نے عدالت میں دلیل دی تھی کہ ان کی موت کل کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں رہی ایک چشم دید گواہ کے مطابق سزا سے پہلے جب مجرم مونڈ گوچری کے چہرے سے ماسک اتارا گیا اور اس سے پوچھا گیا کہ کیا مرنے سے پہلے انہیں کچھ کہنا ہے تو انہوں نے نا کے علاوہ کچھ نہیں کہا مجرمہ کے وکیل کیلے ہینری نے ان کی موت کے بعد کہا لیذا کو انصاف نہیں ملا اور سزا دینے میں جو بھی لوگ شامل رہے انہیں شرم آنی چاہیے کہ وہ ایک ٹوٹی ہوئی اور تکلیفوں سے گھری عورت کی سز ا کو روک نہیں پائے محکمہ انصاف کے مطابق لیزا کی سزا کو دوبار ملتوی کیا گیا ۔جس میں کورونا وبا بڑی وجہ رہی ۔لیزا نے 2004میں امریکہ کی مسوٹی ریاست میں ایک حملہ عورت کا گکلا گھوٹ کر مار ڈالا تھا اور اس کے بعد متوفی عورت کا پیٹ چیر کر لیزا نے اس کے بچے کا اغوا کر لیاتھا ۔لیزا نے پہلے امریکی سرکار نے سال 1953میں ایسی سزا دی تھی امریکہ میں موت کی سزا کا ریکارڈ رکھنے والے سینٹر کے مطابق 1953مین مسوٹی ریاست کی بونی ہیڈی کو گیس چیمبر میں رکھ کر موت کی سزا دی گئی تھی آئیے جانیں کون ہے لیزا مانڈ گوچری ؟ دسمبر 2004میں لیزا کی بھابھی جو سٹ نیٹ سے بات ہوئی تھی لیزا ایک پلا خریدنا چاہتی تھی محکمہ انصاف کی خبر کے مطابق اس کے لئے لیزا کینصاص سے مسورٹی گئی جہاں بابی رہتی تھیں بابی کے گھر میں گھسنے کے بعد لیزا نے ان پر حملہ کیا اور گلا گھونٹ کر ان کو مار ڈالا ۔جس وقت یہ واردات ہوئی تب وہ وابی آٹھ مہینہ کی حاملہ تھی اس کے بعد لیزاوابی کے پیٹ کو چاکو سے چاک کیا اوراس کے پیٹ میں پل رہے بچے کو اس سے الگ کر دیا ۔اس کو لے گئی ۔محکمہ انصاف نے بتایا تھا کہ لیزا نے کچھ وقت تک یہ جتانے کی کوشش کی تھی کہ بچہ انہیں کا ہے اور سال 2007میں ایک جیوری نے لیزا کو قتل اور اغوا کا قصوروار پایا تھا اور اتفاق رائے سے انہیں سزائے موت دینے کی سفارش کی تھی لیکن مجرمہ کے وکیل نے دلیل دی کہ بچپن میں لیزا کو بہت زیادہ پیٹا گیا تھا ان کا ٹارچر ہوا جن سے ان کے دماغ کو نقصان پہونچا جس وجہ سے وہ ذہنی طور سے بیمار ہیں ۔اس لئے انہیں موت کی سزا نہیں دی جانی چاہی امریکہ کے عدلیہ نظام کے تحت ملزمان کے خلاف یا تو قومی سطح پر فیڈرل عدالتوں میں مقدمہ چلائے جا سکتے ہیں یا پھر علاقائی سطح کی عدالت میں جرم ایسے اشو ہیں جو ای میل تھیوری وغیرہ اپنے آپ بھی اسکیپ کی سطح کی عدالتوں کے دائرے می آتے ہیں بیچ میں امریکہ میں موت کی سزا پر روک لگ گئی تھی لیکن 1976میں یہ سزا بحال ہو گئی تھی ۔اس کے بعد لیزا کو پہلی سزائے موت دی گئی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟