ترون سسودیہ کی خودکشی پر اٹھے سوال!

دہلی کے ایمس ٹراما سینٹر میں کورونا پوزیٹو نوجوان صحافی ترون سسودیہ نے پیر کے روز اسپتال کی چوتھی منزل سے مثتبہ حالت میں کود کر جان دے دی ۔اسے اس خود کشی کو مشتبہ حالات سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے وہیں ان کے موبائل میں مبینہ طور پر واٹس ایپ میں خود کو قتل کا اندیشہ جتایا جانے سے موت کو لیکر کئی طرح کے سوال کھڑے ہو گئے ہیں مثلا واردات کے وقت اس وارڈ کے سکیورٹی گارڈ کہاں تھے ؟پولیس کو کوئی خودکشی نامہ نہیں ملا ۔سسودیا کے بڑے بھائی دیپک سسودیہ کاکہنا ہے کہ میرابھائی اتنا کمزور نہیںتھا کہ وہ خودکشی کر لے کئی دنوں سے اس کا ٹھیک طرح سے علاج نہیں ہو رہا تھا جس سے وہ پریشان تھا اس کی موت کا ذمہ دار اسپتال ہے کورونا انفیکشن وارڈ سے آئی سی یو میں کیوں شفٹ کیاگیا۔فیملی سے پوری طرح رابطہ کیوں ختم کر دیاگیا جبکہ رابطے میں رہنے سے انہیں ذہنی طور سے سکون ملتا ہے کن حالات میں ترون نے اپنے ساتھیوں کو ایک گروپ میں لکھا ہے کہ میرا قتل ہو سکتا ہے ؟ڈائگ نوسز میں اگر نیورو اور سائیکو کنڈیشن کے تھے تو ایسے مریض کو گہری نگرانی میں کیوں نہیں رکھاگیا ؟آئی سی یو سے کیسے کووڈ مریض نکل بھاگا اورپہلے جالی اور پھر شیشے توڑ کر منزل سے چھلانگ لگا دی ؟اپنی رپورٹ میں ایمس کہہ رہا ہے کہ اس کے پیچھے سکیورٹی ملازم دوڑے کیا ایمس آئی سی یو سے لیکر باہر تک کا سی سی ٹی وی فوٹیز شئیر کریگا ؟اس واقعے کو لیکر اٹھ رہے سوالوں کے درمیان ایمس کی طرف سے بھی بیان جاری کیا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ترون کو کورنا کے اثرات کے چلتے آئی سی یو میں بھرتی کرایا گیاتھا لیکن ان کی حالت میں بہتری ہونے کے بعد ہی انہیں جنرل وارڈ میں منتقل کرنے کی تیاری تھی ۔ترون اک بج کر پندرہ منٹ پر اپنے بیڈ سے اٹھ کر چوتھی منزل کی طرف جانے لگا تو اسے دیکھ کر اسپتال کے ملازم بھی ان کے پیچھے بھاگے لیکن وہ اوپر کی طرف تیزی سے چڑھ کر نیچے کو د گئے ۔دہلی جنرل ایسی سیوشن سے جیوڈیشئل انکواری کی مانگ کی ہے ۔صحافیوں نے پریس کلب آف انڈیا کے باہر ایک امن ما رچ نکالا انتظامیہ کی طرف سے سی سی ٹی وی فوٹیز کی جا چ کی جائے ۔کیاترون سسودیہ کو ان پر کسی طرح کا ذہنی دباو¿ تو نہیں تھا دہلی جنرل اسوشئیشن کے جنرل سکریٹری اور سینئر صحافی کے پی ملک نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر جانچ کی مانگ کرتے ہوئے لکھا کہ نوجوان صحافی کی مشتبہ حالت میں جانچ کی مانگ کے سلسلے میں مانگ کی جائے ۔اور موت کے سبھی پہلوو¿ں پر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے وہیں مرکزی وزیر صحت نے ٹوئیٹ کر جانچ کے احکامات دے دئیے ہیں انہوں نے اپنے حکم میں ہائی لیبل کمیٹی بنا کر 48گھنٹے میں رپورٹ سونپنے کا ایمس ڈائرکٹر کودے دیا ۔ترون سسودیا نے خود کشی کی یا انہیں ماراگیا یہ جانچ کا پہلو ہے اور جلد صحیح پوزیشن سامنے آنے کی امید ہے ۔بہرحال جو بھی اس نوجوان صحافی کے جانے پر سبھی کو بہت دکھ ہوا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟