تقرریوں اور تبادلوںمیں مداخلت عدلیہ کےلئے اچھی نہیں

سپریم کورٹ نے حال ہی میں کہا تھا کہ جج صاحبان کی تقرری تبادلے عدلیہ انتظامیہ کےلئے اہم ہیں ۔اور اس میں کسی بھی طرح کی مداخلت عدلیہ کے لئے اچھی نہیں ہے ۔چیف جسٹس رنجن گگوئی ،جسٹس ایس اے بوبڑے ،اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی بنچ نے جسٹس عقیل قریشی کی ترقی کے معاملے میں مرکز کو کالیجیم کی سفارشیں نافذ کرنے کی ہدایت دینے کے لئے گجرات ہائی کورٹ کے وکیلوں کی یونین کی عرضی پر سماعت کے دوران یہ رائے زنی کی تھی جسٹس گگوئی کی سربراہی والے کالیجم نے 10مئی کو جسٹس قریشی کو ترقی دے کر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی تھی ۔حالانکہ بعد میں کالیجم نے جسٹس قریشی کو ترپورا ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی تھی ۔بنچ نے گجرات ہائی کورٹ کے وکلاءیونین کی عرضی التوا میں رکھتے ہوئے کہا کہ تقرریاں اور تبادلے عدلیہ انتظامیہ کی تہہ تک جاتے ہیں ۔اور جہاں عدلیہ پر جائزہ ممنوع ہے عدلیہ انتظامیہ کے سسٹم میں مداخلت ادارے کے لئے اچھا نہیں ہے ۔ججوں کی تقرری کے معاملے میں مداخلت سے عدلیہ کے چلن نظام پر اثر پڑتا ہے ۔یہ ایک نئے خطرے کا اشارہ ہے اس عدالت کے کالیجم نے اپنی توثیق پچھلی دس مئی کو کر دی تھی لیکن مرکزی حکومت نے تقرری نامہ جاری نہیں کیا اور پھر کورٹ کے پوچھنے پر صلاح دی کہ انہیں کسی چھوٹے ہائی کورٹ میں بھیجا جانا چاہیے ۔کالیجم نے انہیں ترپورا ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا لیکن ابھی تک حکومت نے کوئی باقاعدہ تقرری نامہ جاری نہیں کیا حالیہ دور میں ججوں کے خلاف بھی سوشل میڈیا میں تمام ایسی رائے زنی آنے لگی ہیں جو قانونی طور سے توہین عدالت ہے جہاں ایک طرف لوگوں کا دیش کی سپریم عدالت پر بھروسہ ہر سروے میں پایا گیا وہیں اس طرح کی رائے زنی جج صاحبان کے لئے ذہنی تکلیف کا سبب بن رہی ہیں ۔حال ہی میں حکومت نے کالیجم کی تین توثیقوں پر نا اتفاقی ظاہر کی اور کالیجم میں ان پر غور کر انہیں پھر تقرر کیا ۔مثا ل کے لئے جسٹس قریشی کے علاوہ جسٹس وکرم ناتھ کو پہلے کالیجم نے آندھرا پردیش کا چیف جسٹس مقرر کیا لیکن سرکار کے اعتراف پر انہیں گجرات بھیجا گیا ۔2018میں جسٹس انیرد بوس کو پہلے دہلی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کرنے کی سفارش کالیجم نے کی لیکن سرکار کی مداخلت کے بعد انہیں جھارکھنڈ بھیج دیا گیا ۔کچھ دن پہلے عدالت نے اپنے ہی رجسٹری میں بیٹھے کچھ لوگوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے حکم بدل دیے جاتے ہیں ۔اور کئی ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جس میں دیش کے طاقتور لوگوں سے ملی بھگت کے تحت بنچ کو متاثرکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ہم ایسے لوگوں کو وارنگ دیتے ہیں کہ یہ سب چلنے نہیں دیا جائے گا آج بھی سپریم کورٹ پر لوگوں کا بھروسہ بنا ہوا ہے اور یہ ضروری بھی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟