ایران،سعودی عرب میں مذہب اور خطے میں بالا دستی کا جھگڑا

ایران کے صدرحسن روحانی نے امریکی فوج کو سعودی عرب میں بھیجنے پر تلخ انداز میں اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ غیر ملکی فوج خلیج کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے اور اسے باہر ہی رہنا چاہیے ۔روحانی کا کہنا تھا کہ غیر ملکی فوج ہمیشہ اپنے ساتھ دکھ اور درد لاتی ہے اور ہمارے خطے میں یہ صرف پریشانی ہی کھڑی کرئے گی ۔بتا دیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیو کلیائی سمجھوتہ توڑنے کے بعد سے امریکہ اور ایران کے رشتوں میں کڑاوہٹ آگئی ہے ۔14ستمبر کو سعودی عرب کی دو پیٹرولیم ریفاینری میں ہوئے ڈرون حملے کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے لی تھی لیکن سعودی اور امریکہ اس کے لئے ایران کو ذمہ دار مان رہے ہیں ۔نتیجتا ٹرمپ نے سعودی عرب میں امریکی فوجی کی ٹکڑی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔در اصل سعودی عرب اور ایران کے درمیان کافی عرصہ سے ٹکراﺅ چل رہا ہے ۔دونوں دیش لمبے وقت سے ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن حالیہ دنوں میں دونوں کے درمیان تلخی اور بڑھی ہے ۔طاقتور پڑوسیوںکے درمیان یہ لڑائی لمبے عرصے سے علاقائی بالا دستی کو لے کر چل رہی ہے ۔دہائیوں پرانی اس لڑائی میں مرکز مذہب بھی ہے ۔دونوں ہی حالانکہ اسلامی ملک ہیں لیکن دونوں سنی اور شیعہ بالا دستی والے ہیں ۔ایران شیعہ مسلم اکثریتی والا ملک ہے وہیں سعودی سنی اکثریتی والا تقریبا پورے مشرقی وسطی میں یہ مذہبی بٹوارہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔یہاں کے دیشوں میں کچھ شیعہ اکثریت میںہیں تو کچھ سنی اکثریت حمایت اور صلح کے لئے کچھ دیش ایران کے ساتھ ہیں تو کچھ دیش سعودی عرب کی طرف دکھائی پڑتے ہیں ۔تاریخی طور سے سعودی عرب نے شاہی راج ہے سنی عرب اسلام کی سرزمین ہے اور اسلامی دنیا کی سب سے اہم ترین مقامات میں شامل ہے لہذا یہ خود کو مسلم دنیا کے لیڈر کے طور پر دیکھتا ہے ۔حالانکہ 1979میں ایران سے ہوئے اسلامی ایران سے چیلنج ملا تھا جس سے اس خطے میں ایک نئی طرح کی ریاست بنی اور ایک طرح کا انقلابی مذہبی مشینری والی حکومت سسٹم رائج ہوا ۔ان کے پاس اس ماڈل کو دنیا بھر می پھیلانے کا واضح مقصد تھا خاص کر گزرے پندرہ برسوںمیں لگاتار کچھ واقعات کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات میں بے حد تیزی آئی ہے ۔2003میں امریکہ نے ایران کے اہم حریف عراق پر حملہ کر صدام حسین کا اقتدار تہس نہس کر دیا تھا اس سے یہاں شیعہ اکثریتی حکومت کے لئے راستہ کھل گیا اور دیش میں ایران کا اثر تیزی سے بڑھا 2011کی پوزیشن یہ تھی کہ کئی عرب ملکوں میں بغاوت کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں ۔جس کی وجہ سے پورے علاقہ میں سیاسی اتھل پتھل ہو گئی ایران اور سعودعی عرب نے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے شام،بحرین،اور یمن میں اپنے اثر کو بڑھانا شروع کر دیا ۔جس سے آپسی شک و شبہات اور بڑھے اور سیاسی رقابت بھی بڑھتی رہی کیونکہ ایران کئی معنوں میں اس علاقائی جد و جہد میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے سعودی عرب اب ایران کے دبدبے کو روکنے کے لئے اتاولا ہے اور سعودی عرب کے حکمراں نوجوان جوشیلے شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کا فوجی ہمت اس خطے میں کشیدگی کے حالات کو اور زیادہ بد تر بنا رہی ہے ۔انہوںنے پڑوسی یمن میں باغی حوثیوں کی تحریک کے خلاف جنگ چھیڑی ہوئی ہے تاکہ وہاں ایران کا اثر نہ بڑھ سکے ۔لیکن پچھلے چار سال بعد اب یہ اس کے لئے بھی مہنگا داﺅں ثابت ہو رہا ہے ۔موٹے طور پر وسطی مشرق کا موجودہ سیاسی نقشہ شیعہ سنی کی تقسیم کو دکھاتا ہے ۔سنی اکثریت سعودی عرب کی حمایت میں متحدہ عرب عمارات ،بحرین،مصر،اور جارڈن جیسے خلیجی ملک کھڑے ہیں وہیں ایران کی حمایت میں شام کے صدر بشر الا اسد ہیں جنہیں سنیوں کے خلاف حزب اللہ سمیت ایرانی شیعہ جنگجو گروپو ں کی حمایت ہے ۔کل ملا کر سعودی عرب کی دو تیل صفائی کارخانوں پر حملے نے وسط مشرق میں حالات بے حد کشیدہ بنا دیے ہیں ۔صحیح معنوں میں ان دونوں حریف ملکوں کے درمیان سرد جنگ کیطرح ہے جیسا کہ امریکہ اور سویت یونین کے درمیان کئی برسوں تک تعطل بنا رہا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟