بہاراور یوپی میں بارش کا قہر!

بہار اوراترپردیش میں برسات نے جس طرح کا قہر ڈھایا ہے وہ کسی بڑی قدرتی آفت سے کم نہیں ہے اس سال اتنی بارش ہوئی ہے کہ پچھلے کئی برسوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ۔بجلی گرنے سیلاب میں ڈوبنے دیوار گرنے سے لے کر کرنٹ کی زد میں آنے کی وجہ سے اترپردیش میں 80بہار میں قریب 30لوگوں کی جانیں گئیں اور کئی شہروں میں پانی بھر جانے سے سڑک اور ریل ٹریفک سمیت باقی عام زندگی ٹھپ ہونے کی حالت یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ ترقی کے نام پر اسمارٹ سٹی بنانے ،اچھی سڑکوں اوراونچی عمارتوں کا حوالہ دینے کی حقیقت زمین پر کیا ہے ؟بہار کی راجدھانی پٹنہ میں سڑکوں پر چھ سے سات فٹ پانی بھر گیا ہے جس کی وجہ سے وزیر ممبران اسمبلی سمیت 80فیصد گھروں میں پانی داخل ہو چکا ہے ۔کوچند ہب کہے جانے والے راجیندر نگر علاقہ میں پیر کے روز ہاسٹل میں پھنسی طالبات کو نکالا گیا ۔علاقہ میں بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی بھی رہتے ہیں جو سیلاب کے سبب اپنے گھر میں پھنسے ہوئے تھے انہیں اور ان کے کنبے کو پیر کی صبح کشتی کی مدد سے بچا کر نکالا گیا پٹنہ سے گزرنے والی چاروں ندیاں سون،گنگا، گنڈک،اور پنپن خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہیں ۔نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی کے گھر میں پانچ فٹ پانی بھر گیا تھا بجلی بھی بند تھی ۔اور انورٹر بھی بند ہو گیا تھا جس وجہ سے بنا بجلی کے دن کاٹنے پڑے ۔این ڈی آر ایف کی ٹیم نے صبح 11بجے بمشکل طریقہ سے سشیل مودی اور ان کے پریوار کو کشتی میں بٹھا کر محفوظ جگہ پر پہنچایا گیا ۔آخر کار برسات کی وجہ سے کسی شہر کے ڈوبنے کی یہ حالت کیسے پیدا ہو رہی ہے ؟پٹنہ میں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر برسات پوری طرح رک بھی جاتی ہے تو گلی محلوں میں جمع پانی کیسے نکلے گا ؟ایسی صورت میں سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ سرکار کے پاس ایسے حالات سے نمٹنے کی کیا تیاری تھی نہ صرف عام زندگی تہس نہس ہو گئی ہے بلکہ عام آدمی کا بھی کافی نقصان ہوا ہے ۔اس کے لئے حکمراں اور انتظامیہ کی ناکامی بھلے ہی ذمہ دار ٹھہرا کر تسلی کر لی جائے لیکن اس کی جڑ میں جو غیر نا مکمل یا بے ترتیب ترقی ہے جدید ہندوستان میں وکاس کی ایسی تشریح گھڑی گئی ہے کہ قدرت کے ساتھ تال میل بگڑتا گیا اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔یہ قہر قدرتی اور ماحولیات سے چھیڑ کا ہی نتیجہ ہے ۔ہم اسمارٹ سٹی بنانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن جو شہر ہیں ان میں بنیادی سہولیات کی کتنی کمی ہے یہ سیلاب اسی کی ایک مثال ہے اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ قدرت کے ساتھ حالات کو دیکھ کر ہی ترقیاتی کام کوا نجام دیا جائے قدرت باربار یہ وارنگ دے رہی ہے کہ اگر وقت رہتے نہیں آگارہ ہوئے تو اس سے بھی خطرناک حالات پیدا ہو سکتے ہیں ۔فی الحال تو پانی اترنے اور برسات رکنے کا انتظار کیئجے اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے بھی تیار رہیے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟