چیف جسٹس کے لائق خیر مقدم سجھاو ¿ !

 چیف جسٹس رنجن گگوئی نے وزیر اعظم نریند رمودی کو ایک اہم ترین خط لکھا ہے سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں 30لاکھ سے زائد التوا میں پڑے مقدمات کے نپٹان کے لئے چیف جسٹس نے اپنے خط میں اولین ترجیحات کے ساتھ دوآئینی ترامیم کی درخواست کی ہے ا ن میں ایک تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ ہو جو ابھی 31ہے دوسرا ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ عمر 62سے بڑھا کر 65کی جانی چاہئے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے پی ایم مودی کو بھیجے تیسرے خط میں آئین کی دفعہ 128اور 224اے کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ریٹائر جج صاحبان کی میعاد کی پرانی روایت کو دوبارہ سے رائج کرنے کی مانگ کی ہے ایسا کرنے سے برسوںسے لٹکے مقدمات کا نپٹارہ کیا جا سکتا ہے اس وقت سپریم کورٹ میں جج کا کوئی عہدہ خالی نہیں ہے اور عدالت میں 31جج ہیں جبکہ مقدمات 58669مقدمے لٹکے ہوئے ہیں نئے مقدمات کے آنے کی وجہ سے یہ تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے ۔ججوں کی کمی کے سبب اہم مقدمات پر فیصلہ لینے کے لئے درکار تعداد میں بنچوں کی تشکیل نہیں ہوپائی ۔چیف جسٹس صاحب نے وقت کے مطابق سجھاو ¿ دیا ہے اور اس کے لئے آئینی راستے بھی بتائے ہیں ۔چیف جسٹس بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ججوں کی کمی کی وجہ سے سپریم کورٹ میں التوا میں پڑے مقدمات کی سماعت کےلئے آئینی بنچ بنانا ممکن نہیں ہوپارہا ہے حقیقت میں ہم سب عدالتوں میں التوا مقدمات کے انبار کا اکثر تذکرہ کرتے رہتے ہیں لیکن انکے نپٹارے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا پاتے ویسے لمبے عرصے بعد سپریم کورٹ کی درخواست پر نریند ر مودی سرکار نے مقرر آسامیوں پر ججوں کی تقرری کی ہے یعنی اس وقت کوئی عہد ہ خالی نہیں ہے لیکن اب چیف جسٹس ججوں کی تعدا د بڑھانے کی مانگ کررہے ہیں اس طرح انہوں نے آئین میں ترمیم کر بڑی عدالتوں سے ریٹائر ہوئے ججوں کی عمر 62سے 65کردینے کی تجویز رکھی ہے تو اس بھی اثر ہوگا 25ہائی کورٹ نے ججوں کے لئے 1079آسامی منظور ہیں مگر ان میں 399جگہیں خالی پڑی ہیں ظاہر ہے کہ اگر ان آسامیوں پر تقرری ہوجائے تو چیف جسٹس کی تجاوز کے مطابق ریٹارمنٹ کی عمر 62سے 65ہونے سے التوا میں پڑے مقدمات میں تیزی لائی جاسکتی ہے ۔جب سپریم کور ٹ میں ججوں کی ریٹائر منٹ عمر 65برس ہوتی ہے تو ہائی کورٹ میں ایسا کیو ں نہیں ہوسکتا ؟عمر زیادہ ہونے سے ذمہ داری کے تئیں ان میں پختگی آتی ہے اور وہ اپنے نئے نئے تجربات او رنظریا ت کی روشنی میں مقدموں پر کام کرتے ہیں ہمار ا بھی یہ خیال کہ وزیر اعظم کو ان تجاویز میں جتنا ممکن ہے اسے تسلیم کرنے کے لئے جلد قدم اٹھا چاہئے ۔

(انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟