پہلے ارجت پٹیل اب ورل آچاریہ

ریزو بینک آف انڈیا کی مختاری کے پر زور ہمایتی ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ نے اپنے عہدے سے استعفی کے دیا ہے ۔90کی دہائی میں اقتصادی اصلاحات کے بعد سب سے کم عمر کے ڈپٹی گورنر بنے آچاریہ مرکزی بینک کی مختاری کے پر زور پیروکار رہے ہیں ۔آر بی آئی کے مفادات کو لے کر کئی بار انہوںنے مودی سرکار کے کام میں پریشانی کے حالات پیدا کئے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ آربی آئی کی مختاری اقتصادی ترقی اور مالی مضبوطی کے لئے بے حد ضرور ہے ۔اپنی میعاد پوری ہونے سے چھ مہینے پہلے ہی عہدہ چھوڑنے والے آچاریہ نے پچھلے سال اکتوبر میں سرکار کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکزی بینک کی مختاری سے چھیڑ چھاڑ کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں اس کے بعد مزکز کی جانب سے آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 7کے تحت مرکزی بینک کو ہدایات جاری کرنے کی نوب آگئی آچاریہ کا مہنگائی کو لے کر سخت رخ رہا ہے اور کئی بار سود کی شرحو ں میں کمی کو لے ک رانہوںنے نا اتفاقی ظاہر کی تھی ۔آچاریہ کے پاس ریزو بینک میں کرنسی اور ریسرچ یونٹ کی ذمہ داری تھی ۔آچاریہ کااستعفیٰ سیاسی الزام پر الزام کا معامہ بنا ہو ا ہے جو معمولی نہیں ہے ۔حالانکہ عہدے چھوڑنے کے پیچھے ذاتی وجوہات کا حوالہ دیا ہے۔لیکن جو وا قف کار ہیں یقینی طور پر اسے پچھلے کچھ مہینوں سے رونما واقعات سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں ۔آخر تین سال کے اپنے عہد کے ختم ہونے سے چھ مہینے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا ایک عام واقعہ نہیں مانا جاسکتا ۔پچھلے سات مہینوں میں اس بڑے بینک کے بڑے عہدوں سے استعفیٰ دینے والے دوسرے افسر ہیں ۔ستمبر2018میں ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا ۔اور تب ان کی بھی معیاد قریب نو مہینے بچی تھی۔آزادانہ خیال رکھنے والے ماہر اقتصادیات آچاریہ کئی موقعوں پر سرکار اور مالیاتی محکمے کی نکتہ چینی اور مرکزی بینک کی مختاری کا اشو اُٹھا کر تنازعات میں رہے ہیں ۔پچھلے سال اکتوبر میں اے جی شراف میموریل لیکچر میں کہا تھا کہ سرکار کا فیصلہ لینے کے پیچھے نظریہ محدود دائرہ والا ہے ۔اور یہ سیاسی نظریہ پر مبنی ہوتا ہے ۔اس لیکچر سے آر بی آئی اور سرکار کے درمیان مختلف اشوز پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے کرنسی پالیسی پر اپنے سخت موقوف کی وجہ سے گورنر ششی کانت داس کے ساتھ کئی مرتبہ نہ اتفاقی رہی کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجیوالا نے تبصرہ کیا کہ سرکار کو سچائی کا آئینہ دکھانے والے ماہرین کی فہرست میں آچاریہ کا نام شامل ہو گیا ۔بھاجپا کے عہد میں چار اقتصادی ماہرین آر بی آئی کے دو سینر افسران جا چکے ہیں ۔ویسے یہ کہنا مشکل ہے کہ سرکار کا موقوف صحیح رہا ہے یا آچاریہ کا کیونکہ سرکار کوسماجی بہبود سے متعلق پالیسیوں پر کام کرنا ہوتا ہے ۔اور ریزرو بینک حقیقی اقتصادی مالی کسوٹیوں پر ان قدموں کا ہمایت یا مخالفت کرتے ہیں لیکن تکلیف دہ پہلو بہر حال یہ بھی ہے کہ سرکار ان کی مخالفت کرنے والوں کو برداشت نہیں کرتی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟