مانسون کی دھیمی رفتار سے بڑھتے مسائل

ہمارے دیش کے زراعت اورپانی مانسون یعنی بارش کے ارد گرد گھومتی ہے اچھی بارش ہونے سے پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں۔اور معیشت کوپر لگ جاتے ہیں تو اس میں کمی طرح کی مشکلات پیدا کر دیتی ہے مانسون کی شروعات میں تاخیر اور اس کی دھمی رفتار سے جہاں ہماری زراعت سیکٹر میں بحران پیدا ہو رہا ہے ۔وہیں پانی کا مسئلہ بھی کھڑا ہو رہا ہے ۔بھارت میں سب سے زیادہ بارش جون سے ستمبر میں ہوتی ہے ۔یہ سالانہ ہونے والی بارش کا 70فیصد ہوتا ہے ۔اس مرتبہ مانسون کی دیری کے سبب بارش کم ہونے کے امکانات جتائے جا رہے ہیں ۔اس بار پچھلے بارہ سال میں سب سے دھیمی رفتار سے مانسون آگے بڑھ رہا ہے ۔کیرل میں جون کے پہلے ہفتے میں آتا تھا جو ایک ہفتے تاخیر سے پہنچا یہاں تک جون میں بارش بھی اوسطاََ چالیس فیصد کم ہوئی ہے ۔جس کے نتیجے میں فصل خراب ہونے کے دہانے پر ہے ۔اگر غذایت کی پیداوار میں کمی ہوگی تو معیشت کے ڈگمگانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔کل ملا کر مانسون کی بے حد سست رفتار نے کسانوں اور سرکار سبھی کے چہرے پر پریشانی کی شکن لا دی ہے ۔کم بارش کا مطلب زبردست گرمی اور خشک سالی کا اندیشہ 14جون تک کسانوںنے 8.22ملین ایکٹر زمین میں خریف کی پود لگائی یہ نو فیصد کم ہے ۔اور اس کی وجہ سے مانسون میں دیری سے خریف کی فصلیں مانسون پر ہی منحصر ہیں تیسرے برس بھی عام بارش اوسط 93فیصد رہ سکتاہے ۔پچھلے دو برس میں زرعی اجناس کی کثیر پیداوار میں سبزیوں اور دالوں وغیرہ کی قیمتوں میں گراوٹ آئی تھی ۔کھلے بازار میں عام کم از کم ویلو قیمت جی ڈی پی سے کم تھی حالانکہ حالت اب تھوڑی سی بہتر ہے ۔سبزیوں کی قیمتیں بھی مانسون پر منحصر ہوتی ہیں ۔بہار اور مشرقی اتر پردیش میں 27جون تک مانسون آئے گا ۔اور کئی دنوں سے مانسون حرکت میں ہے ۔لیکن شمالی بھارت کی ریاستوں میں پہنچے کے لئے ابھی ہفتہ کا وقت لگ سکتا ہے موسم محکمہ نے بتایا کہ اس کے بعد مانسون مغربی اترپردیش دہلی ہریانہ اور راجستھان کی جانب بڑھے گا ۔دہلی این سی آر میں جون کے آخری اور جولائی کے پہلے ہفتے میں پہنچے کے آثار ہیں ۔پچھلے 24گھنٹوں کے دوران وسطی مہاراشٹر اور اندرونی کرناٹک سے لے کر کولکاتہ تک مانسون نے دستک دے دی ہے ۔دیش کے کئی حصے خشک سالی کا شکار ہیں ۔اور ساﺅتھ انڈیا کے کئی شہروں میں پانی کی قلت ہوگئی ہے ۔جبکہ زیادہ تر ریزرو وائر میں دس فیصدی سے بھی کم پانی کا زخیرہ بچا ہے ۔یہاں ذمہ داری سیدھے سیدھے حکومت پر آجاتی ہے ۔فی الحال جو حالت ہے اس میں اگر سرکاری مشینری حرکت میں اور چوکس نہیں ہوئی تو نہ صرف ملک کی معشت بلکہ مہنگائی اور محصول میں کمی آنے کا اندیشہ ہے جس کے لئے دیش کو دو چار ہونا پڑئے گا حالات کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے حکومت اس بارے میں فوراََ اور تیزی سے راحت کے اقدام کرئے ۔یہ بھی تشویش کا باعث ہے کہ آزادی کے ستر سال بعد بھی ہم مانسون پر کھیتی اور پانی کے انحصار کو کم نہیں کر سکے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟