کس نے دی ان ہزاروں پیڑوں کو کاٹنے کی منظوری

ہرے پیڑوں کی کٹائی کے احتجاج میں دہلی میں’’ چپکو‘‘ آندولن شروع ہوگیا ہے۔ دراصل ساؤتھ دہلی میں سرکاری رہائشی کالونیوں کی بساوٹ اوردوبارہ ترقی کے لئے16500 پیڑ کاٹے جانے ہیں۔مقامی لوگ و ماہر ماحولیات اور آرٹسٹوں کے علاوہ عاپ بھی لوگوں کے ساتھ آندولن میں اتر آئی ہے۔ سروجنی نگر میں سنیچر کو پیڑ کاٹنے کے احتجاج میں مقامی لوگوں و نوجوانوں نے پیڑ سے چپک کر اسے بچانے کی اپیل کی ہے۔ دہلی میں 16500 پیڑ کاٹنے کی منظوری کس نے دی ہے اس پر شش و پنج برقرار ہے۔ حال ہی میں اطلاعات حق سے مانگی گئی ایک عرضی کے جواب میں محکمہ جنگلات ، دہلی پالوشن کنٹرول کمیٹی، دہلی جل بورڈ، ڈی ڈی اے ،سینٹرل زمینی پانی اتھارٹی ،سی پی ڈبلیو ڈی سبھی نے ایک دوسرے پر اس سوال کو ٹال دیا ہے اس لئے این جی ٹی میں بھی عرضی داخل کی گئی۔ این جی او چیتنا کی طرف سے داخل عرضی میں یہ مانگ کی گئی ہے کہ متعلقہ محکمے بتائیں کہ کس کی طرف سے پیڑوں کو کاٹنے کی منظوری دی گئی۔ دراصل سینٹرل اربن ڈولپمنٹ وزارت نے ساؤتھ دہلی میں واقع سات سرکاری رہائشی کالونیوں کے دوبارہ ڈولپمنٹ کی تجویز تیار کی تھی۔سرکار کی کیبنٹ اس ری ڈولپمنٹ پلان کو سال2016 میں ہی منظوری دے چکی ہے۔ اس کے تحت ہی ساؤتھ دہلی میں واقع قدوائی نگر میں 1123، نیتا جی نگر میں 2294، نروجی نگر میں 1454، محمد پور میں 363 اور سروجنی نگر میں 11000 سے زیادہ پیڑ کاٹے جانے ہیں۔ نروجی نگر میں پیڑوں کی کٹائی شروع ہوچکی ہے اب پیڑوں کی کٹائی کی مخالفت بھی شروع ہوگئی ہے حالانکہ مرکز کا کہنا ہے جتنے پیڑ کاٹے جائیں گے اس سے دگنے پودے لگائے جائیں گی۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے پیڑ نہ صرف ہریالی بڑھاتے ہیں بلکہ آلودگی پر بھی کنٹرول رکھتے ہیں۔ دہلی میں پالوشن حد انتہا پر پہنچ چکی ہے ایسے میں پیڑوں کو بچانے، پودے لگانے کی مہم چلانا چاہئے یا ہزاروں کی تعداد میں پیڑ کاٹ کر دہلی کے شہریوں کی کمبختی بڑھائی جائے؟بڑے پروجیکٹوں کے لئے پیڑوں کو کاٹنے کے بجائے متبادل اسکیمیں بننی چاہئیں۔2 برس پہلے سینٹرل روڈ و ٹرانسپورٹ و قومی شاہراہ وزارت نے یہ پالیسی بنائی تھی کہ پروجیکٹوں کے دوران پرانے پیڑوں کو کاٹنے کے بجائے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے پرغور کیا جائے۔ نیشنل گرین ٹربونل نے بھی 2014 میں اپنے حکم میں کہا تھا کہ پیڑوں کی کٹائی سے پہلے ان کی جگہ بدلنے پر غور کیا جانا چاہئے۔ پیڑوں کو جڑ سمیت اکھاڑنے اور شفٹ کرنے کے لئے ایک مخصوص مشینوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دہلی میں یہ مشین موجود نہیں ہے۔ پیڑوں کی کٹائی ویسے بھی غیر قانونی ہے۔ یہ ہمارے ماحولیات کے لئے خطرناک ہے۔ سرکاری ایجنسیوں کو بلا تاخیر ان کی کٹائی روکنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟