کمی کا اثر:فٹ بال ورلڈ کپ کی تین کہانیاں

فیفافٹبال ورلڈ کپ آہستہ آہستہ اپنے کلائمکس پر پہنچتا جارہا ہے۔ پوری دنیا میں کروڑوں اربوں لوگ ان میچوں کو ٹی وی پر دیکھ کر مزہ لے رہے ہیں۔ میں بھی ان میچوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا ہوں۔ روس میں اب کی بار اس ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ یہ انعقاد پرفیکٹ چل رہا ہے۔ ا س دوران کئی کھلاڑیوں نے دنیا کی توجہ اپنی طرف راغب کی ہے ، خاص کر تین کھلاڑیوں نے۔ ان تینوں کی کہانی بیحد دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ سب میں ایک بار یکساں ہے ،کمی کا اثر۔ یعنی سبھی نے ہی وسائل کی کمی کو اپنی جیت کا ہتھیار بنایا۔ برازیل کے کھلاڑی گیبریل جیسس فیفا ورلڈ کپ 2018 میں برازیل کے لئے ٹاپ فارورڈ میں سے ایک ثابت ہورہے ہیں۔21 سالہ جیسس چھ سال پہلے تک برازیل کی گلیوں میں گھوم گھوم کر دیوار، سڑک اور ڈیوائیڈر پر پتائی کیا کرتے تھے۔ ایک دن کے 150 سے200 روپے کما لیاکرتے تھے۔ کم عمر ہی تھے جب والد کا دیہانت ہوگیا۔ ماں اور بھائی کے ساتھ انگلینڈ چھوڑ کر برازیل آنا پڑا۔ فٹبال کا شوق 6 سال کی عمر سے ہی تھا۔ پتائی کے بعد جو وقت بچتا تھا وہ میدان پر گزرتا۔ 2013 میں گیبریل کے کوچ نے انہیں کلب جوائن کروایا اور انہوں نے 47 میچ میں 16 گول کئے۔ 2015 میں انہیں برازیل انڈر۔ 23 اور 2016 میں نیشنل ٹیم میں چن لیاگیا۔ 2017 میں مانچسٹر یونائیٹڈ نے انہیں 240 کروڑ روپے کا کانٹریکٹ دیا۔ ابھی ان کی برانڈ ویلیو 350 کروڑ سے زیادہ ہے۔ بلجیم کے روئیلولفاکو نے دو میچ میں 4 گول کرنے اور رونالڈو کی برابر کر لی ہے۔ انگلینڈ کے ہیریکین 5 گول کے ساتھ نمبر ون پر ہیں۔ برانڈ ویلیو 900 کروڑ روپے سے زیادہ ہے لیکن یہ سفر آسان نہ تھا وہ بتاتے ہیں کہ میں اسکول میں تھا تین چار سال تک گھر میں کھانے کے لئے صرف دودھ بریڈ ملا کرتا تھا۔ ماں سے پوچھا کیا ہم غریب ہیں؟ تو ماں نے کہا یہ ہمارا فوڈ کلچر ہے۔ میں نے بھی مان لیا۔ ایک دن ماں کو دودھ میں پانی ملاتے دیکھ کر سمجھ گیا۔ اب تک فٹبال میرا شوق تھا اس دن یہ میرا پیشہ بن گیا۔ جب میں نیشنل ٹیم میں سلیکٹ ہوا تو میرے نانا نے مجھے فون کیا، کہا وعدہ کرو کے اب تم میری بیٹی کا خیال رکھو گے، تو میں نے کہا آپ کی بیٹی میری ماں ہیں بے فکر رہئے، تب سے میں ان سے کیا وعدہ نبھا رہا ہوں۔ آئس لینڈ کے گول کیپر ہانس ہالڈورسن نے ارجنٹینا کے خلاف میچ میں لیونل میسی کا گول روک کر ارجنٹینا کو ڈرا کھیلنے پر مجبور کردیا۔ ہانس ہالڈورسن اپنی ٹیم کی جدوجہد بتاتے ہیں ہمارے دیش کی آبادی ساڑھے تین لاکھ ہے۔کوئی ہمیں سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں تھا۔ ہمارے پاس میدان تک نہیں تھے۔ ایک میدان ملا جہاں دن میں ہم پریکٹس کرتے تھے اور رات میں گھوڑے باندھے جاتے تھے۔ میں گول کیپر تھا ڈائی مارتا تھا تو میدان میں بکھری گھوڑے کی نال وغیرہ ہاتھ پیر میں لگ جاتی تھی۔ ایسے حالات میں ہمارے کھلاڑی مایوس ہورہے تھے۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کچھ ثابت کرنے کے لئے نہیں بلکہ خود کے لئے کھیلیں گے۔ اس بار کے مظاہرہ سے خوش ہوں مطمئن نہیں۔ 2018 میں تو آئے ہیں 2022 میں دم دکھائیں گے۔ ایسی کئی اور کہانیاں بھی ہوں گی لیکن ہمیں ابھی ان تینوں کی کہانی پتہ چلی ہے۔ اگر کچھ کرنے کی مضبوط خواہش ہو تو برعکس سے بھی برعکس حالات بھی اپنی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟