بھاجپا کو کسی بھی چناؤ میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے

بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ نے 2019 کے لوک سبھا چناؤ میں 50فیصد ووٹ حاصل کرنے کا نشانہ طے کیا ہے۔ حالانکہ آج تک کی تاریخ میں بھاجپا اس نمبر کو کبھی نہیں چھو پائی،یہاں تک کہ اسمبلی انتخابات میں بھی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات میں گجرات کی عوام نے چار بار کسی پارٹی کو آدھے سے زیادہ ووٹ دئے مگر ہر بار یہ پارٹی کانگریس رہی۔ دراصل وہ کم ووٹ فیصد سے بھی زیادہ سیٹیں لے آتی ہے۔ بھاجپا کو لوک سبھا چناؤ 2014 میں سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے اور یہ کل 30 فیصد تھے جبکہ 1984 میں عام چناؤ میں کانگریس کو 49 فیصد ووٹ ملے تھے۔ 2014 کے بعد 14 ریاستوں میں بھاجپا کا ووٹ شیئر گھٹتا چلا گیا۔ 1996 لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کو 28.80 فیصد ووٹ ملے اور اس کے کھاتے میں 140 سیٹیں آئیں تھیں جبکہ بھاجپا کو 20.29 فیصد ووٹ اور 161 سیٹیں ملی تھیں۔1999 کے چناؤ میں کانگریس کو 28.30 فیصد ووٹ ملے اور 114 سیٹیں ملیں۔ بھاجپا کو 23.75فیصدی ووٹ اور 182 سیٹیں ملیں۔ 2014 کے بعد 14 ریاستوں میں بھاجپا کا ووٹ شیئر گھٹا ہے۔ 19 ریاستوں میں بڑھا جبکہ کانگریس کا ووٹ شیئر 10 ریاستوں میں بڑھا اور 13 ریاستوں میں گھٹا۔ زیادہ ووٹ شیئر کا مطلب زیادہ سیٹیں نہیں۔4.1فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 2014 لوک سبھا چناؤ میں بسپا تیسری پارٹی رہی مگر اسے ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ اس کے 34 امیدوار دوسرے نمبر پر رہے جبکہ3.8 فیصد ووٹ سے پی ایم سی نے 34 اور 2.3 فیصد ووٹ کے ساتھ انا ڈی ایم کے نے 37 سیٹیں جبکہ 1.7 فیصد ووٹ سے بی جے ڈی نے 20 سیٹیں جیتی تھیں۔ حال ہی میں کرناٹک اسمبلی چناؤ میں کانگریس کو 26 سیٹیں کم ملیں مگر اسے ووٹ چھ لاکھ سے زیادہ ملے۔ 2015 میں بہار میں آر جے ڈی 80 سیٹوں پر جیت کر پہلے نمبر پر تھی مگر ووٹ شیئر 18.4 فیصد تھا۔ سب سے زیادہ ووٹ شیئر 24.4 فیصد بھاجپا کا رہا تھا جبکہ بھاجپا کو 53 سیٹیں ملی تھیں۔ سیٹوں کے معاملے میں بھاجپا تیسرے نمبر پر رہی۔ اسمبلی میں 41 بار پارٹیوں کو 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ 30 بار کانگریس کو ملے۔ سکم ڈیموکریٹک فرنٹ اور سکم سنگرام پریشد، عام آدمی پارٹی، جنتادل ، نیشنل کانفرنس، جنتا پارٹی، تیلگودیشم کو 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ بتا دیں کہ قومی پارٹی کی شکل میں منظوری تب ملتی ہے جب لوک سبھا یا اسمبلی کے عام چناؤ میں پارٹی کو 4 یا زیادہ ریاستوں میں 6 فیصد ووٹ حاصل ہوں۔ ریاستی سطح کی پارٹی کی شکل میں منظوری تب ملتی ہے جب پارٹی اسمبلی کے عام چناؤ میں 6 فیصد ووٹ حاصل کرتی ہے اور موٹے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ2019 لوک سبھا چناؤ میں اگر اپوزیشن بھاجپا کو آمنے سامنے کی ٹکر دے سکتی ہے تو وہ جیت سکتی ہے۔ جہاں ایک سے زیادہ اپوزیشن امیدوار کھڑے ہوں تو ووٹ بٹیں گے اور اس صورت میں بھاجپا کامیاب ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟