صحیح معنوں میں یودھا ہیں عرفان خان

فلم اداکار عرفان خان ان دنوں لندن میں ایک عجب قسم کے کینسر نیورو انڈروکرائم سے زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عرفان ایک ہیرو کی طرح اس بیماری سے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے پہلی بار اپنی بیماری کا درد خط کے ذریعے سے ظاہر کیا ہے۔ ٹوئٹ پر شیئر پیچ میں عرفان نے کہا انہوں نے نتیجے کی چنتا کئے بغیر برہمان شکتی میں بھروسہ کرتے ہوئے درد ، خوف اور بے یقینی کے ذریعے اپنی لڑائی لڑی ہے۔ عرفان کا کہنا ہے انہیں اس بات کی جانکاری ملی تھی کہ بیماری عجب قسم کی ہے، علاج سے متعلق غیر یقینی اور کچھ معاملوں کی اسٹڈی کے بعد علاج کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے۔ اس دور میں ایسا محسوس ہوا کہ وہ تیز رفتارٹرین سے سفر کررہے ہوں اور اچانک کسی نے یہ اشارہ دیتے ہوئے ٹرین سے اترنے کو کہا وہ منزل تک پہنچ چکے تھے۔ ایک ہیرو کی طرح عرفان اپنی زندگی کے الگ الگ پڑاؤ پ الگ الگ حالات سے لڑنے کے عادی ہیں۔ وہ جنگ چاہے اپنے اندر کے اداکار کو دنیا تک پہنچانے کی ہو یا چکنے چپڑے ہیرو پر مرمٹنے والی انڈسٹری میں ہیروازم کی نئی تشریح گھڑنے کی رہی ہو، عرفان ہر با ر لڑے اور جیتے بھی۔ عرفان کی جس اداکاری کی آج دنیا دیوانی ہے اسے لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھی انہوں نے لمبی لڑائی لڑی تھی۔ تب چھوٹے پردے سے بڑے پردے تک کی کھائی کو مٹا پانا ان کے لئے بڑی جدوجہد بن چکی تھی۔ میرا نایر کی فلم آسکر تک پہنچی ’سلام بامبے‘ میں انہیں وہ موقعہ ملا بھی لیکن ہنر لوگوں کو تب بھی نہیں پہنچا پائے۔ فلم میں ان کے چھوٹے سے رول پر ایڈیٹنگ کے دوران قینچی چل گئی اور عرفان کا انتظار کچھ لمبا ہوگیا۔ پھر حاصل ’مقبول‘ جیسی فلموں میں انہیں شہرت ملی۔ پھر کیا تھا عرفان نے بالی ووڈ میں ہیرو کی تشریح ہی بدل ڈالی۔ وہ چکنے چپڑے، چاکلیٹ یا ماچو ہیرو جس پر لڑکیاں لٹو ہوجائیں اس امیج کو عرفان نے اپنی شاندار پرفارمینس سے بدل دیا۔ آج بالی ووڈ کی سب سے رومانی فلم ’لنچ باکس‘ کے نائک ہیں۔ اس زمرے میں لائف ان میٹرو، پیکو، قریب قریب، سنگل، ہندی میڈیم جیسی فلموں کا نام لیا جاسکتا ہے۔ وہیں ان کا ہیروازم دیکھنا ہو تو پان سنگھ دیکھ لیجئے۔ عرفان کے خط میں ہمیں امید دکھائی دے رہی ہے۔ آج بالی ووڈ سے لیکر عرفان کے لاکھوں فین ان کے صحت یاب ہونے کی دعا کررہے ہیں۔ ہم بھی ان کی سلامتی کے لئے دعا کرتے ہیں۔ وہ جلد اس منحوس بیماری سے فتح پائیں اور گھر لوٹ آئیں۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟