امت شاہ کا 400 سیٹیں جیتنے کا نشانہ

مودی حکومت کے اقتدار میںآنے کے چار سال پورے ہونے کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی پوری طرح سے چناوی موڈ میں آگئی ہے ۔2019میں دہلی کے اقتدار پر پھر اپنی دعویداری کرنے کیلئے بھاجپا نے نیا نعرہ دیا ہے ’’صاف نیت صحیح وکاس ‘‘ایک بار پھر مودی سرکار اور پارٹی کی نگاہیں 2019میں ہونے والے لو ک سبھا کی 80ایسی سیٹوں پررہے گی جہاں وہ 2014میں کامیاب نہ ہوسکی تھی ۔بھاجپانے لوک سبھا چناؤ میں 400سیٹیں جیتنے کا ٹارگیٹ طے کیا ہے ۔ مشن 2019کے لئے پارٹی کا خاص فوکس نارتھ ایسٹ کی ریاستوں پر رہنے کی امید ہے ۔امت شاہ نے تنظیمی عہدیداروں کے ساتھ منتھن شیور میں قریب آٹھ گھنٹے تک انہیں 2019لوک سبھاچناؤ میں جیت کا منتر دیا ۔شاہ نے موجودہ ایم پی کا رپورٹ کارڈ تیار کرنے کابھی فارمیٹ دیا ہے ۔
انھوں نے کہا کہ اسی کی بنیاد پر جنتا سے ممبران پارلیمنٹ کا فیڈ بیک لیکر رپورٹ کارڈ تیار کریں ۔مودی سرکار اور بھاجپا کیلئے 2019کے نشانے کو حاصل کرنے کے راستے میں ابھی کئی اڑچنیں ہیں ۔جیسا کہ کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبر م نے کہاکہ دیش کی معیشت کی حالت ٹھیک نہیں مانی جاسکتی ۔معیشت کے چار ٹائروں میں سے تین ٹائربرآمدات ،پرائیویٹ سرمایہ کاری اور ذاتی استعمال، ان میں سے تین ٹائر پنکچرہوچکے ہیں ۔یہ بھی الزام لگایا کہ سرکار کی پالیسی سازغلطیوں اور غلط قدموں کے سبب پید اہوئیں ہیں ۔زراعت ،جی ٹی پی ،روزگار ،تجارت معیشت کے کچھ دوسرے پیمانیوں کی بنیاد پر مودی سرکار پچھلے چار سالوں میں کھڑی نہیں اتری جی ایس ٹی کو غلط ڈھنگ سے لاگو کرنی وجہ آج بھی کارو بار کو متاثر کررہی ہیں ۔ایک سروے کے مطابق جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے سبب 15لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں ۔کسان الگ پریشان ہے ،کسان سمر تھن ویلوکے مطابق پیدا وار کے دام نہ ملنے پر آندولن کررہے ہیں ریزروبینک کے سروے کے مطابق 48فیصدی لوگوں نے مانا ہے کہ معیشت کی حالت خراب ہوئی ہے ۔ پیٹرول ،ڈیزل کے داموں میں بے تحاشہ اضافہ کے سبب آج مہنگائی آسمان چھورہی ہے ۔ یاد رہے کہ اچھے دن کے وعدے کے تحت 2کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن کچھ ہزارنوکریاں پیدا ہوسکی ۔2015-16ترقی شرح 8.2فیصدی سے گھٹ کر 2018-18میں 6.7فیصدرہ گئی ہے ۔ 
پچھلے چار برسوں میں این پی ائے 263000کروڑ روپے سے بڑھ کر1030'000کروڑ روپے ہوگیا ہے اور آگے مزید بڑھے گا ۔سرکاری بینکو ں کی حالت بد سے بدتر ہورہی ہے ۔این ڈی اے کے ساتھیوں اور بھاجپا کے ناراض نیتا ؤں کا الگ مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔شوسینانے ہمیشہ کی طرح بی جے پی کو اپنا نشانہ بنانے کے لئے اپنے اخبار سامنا کو استعمال کیا ہے اس نے اپنے ادارے میں بی جے پی پر تلخ حملہ کرتے ہو الزال لگا یا کہ بد امنی پھیلانے کے بعد بھگوا پارٹی جموں کشمیر میں اقتدار سے باہر ہوگئی ہے ۔اور اس نے جو لالچ دکھایا ہے اس کیلئے تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ شیو سینا نے بی جے پی کا موازنہ انگریزوں کے بھارت چھوڑکر جانے سے کیا ہے ۔جب بھاجپا اس شمالی ریاست میں دہشت اور تشدد پر لگا م نہیں لگا پائی تو اس نے اس کا ٹھیکرا پی ڈی پی پر پھوڑ دیا ۔ دیش چلانا بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔بی جے پی نے جموں وکشمیر کے حالات اور اس بے میل اتحاد کی حکومت کے سبب اس کی حالت سا ل 1990کی حالت جیسی تک پہنچ گئی ہے ۔مگر 1990میں جموں کے حالات اتنے خراب نہیں تھے ۔ جموں کشمیری پنڈت جو اپنے ہی دیش میں شرنارتھی بن گئے تھے ۔وہ ان کی پناگاہ گھی لیکن آج جموں کے لوگ بے گھر ہو رہے ہیں ۔ بچوں کو اسکولوں سے نکالنا پڑ رہا ہے اور سرحد پر رہنے والے باشندوں کی طرف سے سرکار اتنی سنگدلی ہوگئی ہے کہ پاکستان کے حملو ں میں مارے گئے لوگوں کو ایمبو لینس تک مہیا نہیں کراپائی ۔سرحدی لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو ٹریکٹر وں میں لاد کر لانا پڑا ۔جموں کے لوگوں نے بھاجپا کو دل کھول ووٹ دیا تھا مگر اس نے انھیں بہت ناراض کیا اور جموں کے ہندوؤں کی نظر اندازی کا اثر باقی ہندوستان کے ہندؤوں پر بھی پڑا ہے ۔اتر پردیش میں اور مرکز میں دونوں جگہ بھاجپا کی حکومت ہے لیکن پچھلے چار برسوں میں ایودھیا میں رام مندر بنانے کے وعدے کا کچھ نہیں ہوا جن اشو کو لیکر بھاجپا اقتدار میں آئی تھی وہ سب آج بھی لٹکے پڑے ہیں ۔لو ک سبھا میں پی ڈی پی کا ایک ایم پی ہونے کے سبب بھاجپا پی ڈی پی اتحاد ٹوٹنے سے این ڈی اے پرخاص فرق نہیں پڑے گا ساتھ ہی اب 19ریاستوں میں این ڈی اے سرکار یں بچیں ہیں وہیں پی ڈی پی الگ ہونے کے بعد بھاجپا کے اتحادیوں کو این ڈی اے سے الگ ہونے اور شکایت کا موقع مل گیا ہے ۔انکا الزام ہے کہ این ڈی اے کی اتحادیوں سے سرکار اور بھاجپا اچھا سلوک نہیں کرتی ۔اس وقت این ڈی اے 47ممبر پارٹیاں ہیں لیکن ٹی ڈی پی اور پی ڈی پی کے این ڈی اے سے الگ ہونے کے بعد لوک سبھا میں 45پارٹیاں بچی ہیں ۔ساؤتھ اور نارتھ ایسٹ کی چار پارٹیوں کے پاس محض ایک ایک ایم پی ہے۔میں نے اس ادارے میں ان سب چنوتیوں کا کا ذکر کیا ہے جو بھاجپا کو 2019کے چناؤ میں ان سے نپٹنا پڑ سکتا ہے ۔امت شاہ کو چانکیہ کہا جاتا ہے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان چنوتیوں پر بھاری پڑ یں گے اور مودی کو 2019میں پھر سے اقتدار میں لانے میں کامیاب رہیں گے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟