اب بینک آف مہاراشٹر میں 3 ہزار کروڑ کا گھوٹالہ

سرکاری بینکوں میں جس طرح گڑ بڑیاں اور گھوٹالوں کی خبریں آرہی ہیں وہ سبھی کے لئے زبردست تشویش کا باعث ہے۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پی این بی میں ہوئے گھوٹالہ کے بعد آنے والے دنوں میں بینک گھوٹالہ ہوں گے یا نہیں یہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن جس طرح سے پرانے بینکنگ گھوٹالہ سامنے آرہے ہیں اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ ابھی کئی اور گھوٹالہ سامنے آئیں گے۔ 83 برس پرانے بینک آف مہاراشٹر کے چیئرمین و منیجنگ ڈائریکٹر رویندر مراٹھے و ایگزیکٹو ڈائریکٹر راجندر گپتا اور سابق سی ایم ڈی سشیل بھنوت سمیت کئی لوگوں کو پنے کی ڈی ایس کے گروپ کو فرضی طریقے سے قرض دینے اور سرمایہ داروں کے ساتھ دھوکہ دھڑی کے الزام میں گرفتاری بینک سسٹم کی تنظیمی سرپرستی کو ہی بتاتی ہے۔ اس معاملہ میں ڈیولپر ڈی ایس کلکرنی اور ان کی بیوی کو پہلے گرفتار کیا گیا ہے لیکن یہ تو پولیس اور اکنامک برانچ کا کام ہے جس نے گڑبڑی سامنے آنے اور شکایت درج ہونے کے بعد کارروائی کی۔اصل اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ جو بینک چھوٹے سرمایہ کاروں کے گھر اور گاڑی قرض یا طالبعلم لون وغیرہ کے لئے درجنوں چکر لگواتے ہیں، طرح طرح کی خانہ پوریاں کرواتے ہیں وہ ایک بلڈر کو کیسے کئی ہزار کروڑ روپے کا قرض نہ صرف دیتے ہیں بلکہ بغیر چکائے صاف نکلنے کا طریقہ بھی بتاتے ہیں۔ تشویش کا موضوع یہ ہے کہ آخر ریزرو بینک، سرکاری بینکوں کے ریگولیٹری اتھارٹی ان گڑبڑیوں اور دھوکہ دھڑی کو روکنے میں ناکام کیسے ہو رہی ہے؟ ڈوبتے قرض کے سبب بینکوں کی حالت خستہ حال ہوتی جارہی ہے اور اس کے چلتے 21 پبلک سیکٹر بینکوں میں سے 11 کو ریزرو بینک نے فوراً اصلاحاتی کارروائی سسٹم کے تحت رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بینک کی طرف سے بڑھائی گئی پروویژنگ بھی اس کی وجہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بینک اپریل، مئی، جون میں بھی ڈوبے قرض بڑھنے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ پبلک سیکٹر بینکوں کا اجتماعی خالص خسارہ مالی برس 2017-18 میں بڑھ کر 85370 کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ گھوٹالہ کی سب سے زیادہ مار پنجاب نیشنل بینک جھیل رہا ہے جبکہ آئی ڈی بی آئی بینک اس معاملہ میں دوسرے پائیدان پر ہے۔ صارفین اپنے پیسوں کو بینکوں میں محفوظ مانتا ہے لیکن اس خسارہ سے بینکوں کا بھروسہ لگاتار گھٹ رہا ہے۔ اس سے دوہرا نقصان ہورہا ہے پہلے کہ لوگ اپنا پیسہ بینکوں کے بجائے گھر میں رکھنا بہتر مانتے ہیں اور وسرے پیسوں کی کمی کی وجہ سے یہ پیسہ سسٹم میں نہیں آتا اور اقتصادی ترقی متاثر ہورہی ہے۔ لوگوں کا بھروسہ کم ہونے سے بینک میں جمع سرمایہ کے چلن میں کمی آرہی ہے۔این پی اے سے ڈرے بینک لون لینے میں بھی اب ہچکچاتے ہیں اس سے مہنگائی بڑھنے کا بھی خطرہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟