جی ایس ٹی کے سبب وجود کی لڑائی لڑنے پر اخبارات مجبور

وزیر اعظم نریندر مودی نے گڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی)کو ایمانداری کی جیت اور کو آپریٹیو فیڈرلزم کی بہترین مثال بتایا اور کہا کہ ہمارے نئے ٹیکس سسٹم کے ایک سال کے اندر ہی استحکام حاصل کرنا دیش کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔ جی ایس ٹی کا ایک برس پورا ہونے کے بعد سرکار دوسرے برس میں مختلف چیزوں اور خدمات پر کم ٹیکس کی شرحیں معقول بنانے پر فوکس رکھے گی۔ مانا جارہا ہے کہ اس سمت میں قدم اٹھاتے ہوئے جی ایس ٹی کونسل کی 19 جولائی کو ہونے والی میٹنگ میں جی ایس ٹی میں شامل کچھ اجناس اور سروسز پر ٹیکس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ایسا ہونے پر اس ٹیکس میں شامل کچھ مصنوعات کی تعداد اور کم ہوسکتی ہے۔ ہم امیدکرتے ہیں کہ اخباروں میں نیوز پرنٹ پر لگنے والے جی ایس ٹی کو ختم کیا جائے گا۔ سبھی کو یہ معلوم ہے کہ دیش کی آزادی میں اخبار ہتھیار بنے تھے۔ آج پریس جتنا آزاد اور جارحانہ دکھائی دیتا ہے آزادی کی جنگ میں اتنی ہی بندشوں اور پابندیوں میں تھا۔ نہ تو اس میں منورنجن کا پٹ تھا اور نہ ہی یہ کسی بھی کمائی کا ذریعہ تھے۔ یہ اخبارات اور میگزین آزادی کے جانبازوں کا ایک ہتھیار اور جنتا سے جوڑے رکھتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب لوگوں کے پاس رائے رکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس پر بھی انگریزوں کے مظالم کے شکار لاچار لوگ چپ چاپ سارے ظلم سہا کرتے تھے۔ نہ تو کوئی ان کو سننے والا تھا اور نہ ہی ان کے دکھوں کو سمجھنے والا۔ وہ کہتے بھی تو کس سے اور کیسے؟ ایسے میں اخبارات اور جریدوں کی شروعات نے لوگوں کو ہمت دی، انہیں تسلی دی، یہی وجہ تھی کہ انقلابیوں کے ایک ایک مضمون جنتا میں نیا جوش اور دیش بھکتی کی روح بھرتے تھے۔سن1947 میں جب سے دیش آزاد ہوا تب سے اخباروں میں ہونے والے نیوز پرنٹ (کاغذ) پر کوئی ٹیکس نہیں تھا لیکن موجودہ مودی سرکار نے جی ایس ٹی کے ذریعے سے نیوز پرنٹ پر 5 فیصد جی ایس ٹی لگادیا ہے جس کے سبب نیوز پرنٹ کی قیمت پانچ فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ اخبارات کی فروخت اس کی لاگت قیمت کے بہت کم دام پر ہوتی ہے۔ اخبار قومی تعمیر ہی نہیں کرتے بلکہ دیش کی عوام کو تعلیم یافتہ اور بیدار بھی کرتے ہیں۔ سرکار کی پالیسیوں اورکام کاج کی معلومات بھی اخبارات کے ذریعے سے دی جاتی ہے۔ اخباری کاغذ پر جی ایس ٹی لگانا انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے فروغ اور آئینی اقدارکو قائم رکھنے کے لئے دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے اخبارات پر صفر یا بہت معمولی درپردہ ٹیکس ہی لگتا ہے۔ اس سلسلے میں آئینی کی سرپرست سپریم کورٹ کا بھی ماننا ہے کہ اخبارات میں کوئی بھی ٹیکس خبرکے پھیلاؤ ، خواندگی کی رفتار اور نالج پر حملہ ہے۔اخبارات ملک کی تعمیر ہی نہیں کرتے بلکہ دیش کی عوام کو تعلیم یافتہ اور سرکار کی پالیسیوں، عوام کی شکایتوں کو حکومت تک پہنچانے میں بھی اہم رول نبھاتے ہیں۔ اخباری کاغذ پر جی ایس ٹی لگانا کسی بھی نقطہ نظر سے انصاف پر مبنی نہیں مانا جاسکتا۔ یہ ایک طرح سے معلومات کی نشر و اشاعت پرپابندی لگانے جیسا ہے۔ اخبارات کو چوطرفہ مار پڑ رہی ہے، سرکار کے ذریعے اخبارات میں اشتہارات بھی کم کردئے گئے ہیں۔ اس طرح سے ان کی آمدنی کاسب سے بڑا ذریعہ بند ہوتا جارہا ہے۔ اخبارات کے نیوز پرنٹ پر جی ایس ٹی لگنے اور اشتہارات کم ہونے کے سبب وجود پر بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اخبارات (جن کی تعداد ہزاروں میں ہے) بند ہوگئے ہیں۔ نیوز پرنٹ پر جی ایس ٹی لگنے سے اخبارات پر بہت بھاری بوجھ پڑ گیا ہے۔ اخبار کی فی کاپی کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ ایک اخبار کی کاپی 15-20 روپے میں پڑتی ہے جبکہ اس کی فروخت قیمت 2-5 روپے فی کاپی ہے اس لئے ان کو قومی مفاد میں بچانے کے لئے موجودہ جی ایس ٹی کو نیوز پرنٹ (اخباری کاغذ) سے ختم کردینا چاہئے و ان کو جی ایس ٹی کے دائرہ سے باہر کرنا چاہئے۔ اخبارات کسی بھی صنعت کے زمرے میں نہیں آتے۔ اخبارات ایک صنعت نہیں ہے اور یہ ایک عوامی جذبے سے کام کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے بھی جی ایس ٹی ، اخباری کاغذ سے فوراً ہٹانے کی سخت ضرورت ہے۔ اخباری کاغذ کو جی ایس ٹی ٹیکس کے زمرے سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ جب 2014 میں مودی حکومت آئی تھی تو ہمیں اس حکومت سے بہت امیدیں تھیں لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ سرکار نے آتے ہی حکومت ہند کے وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت کام کرنے والے ادارہ ڈی اے وی پی نے2016 میں ایک پالیسی بنائی جس کی وجہ سے زیاہ تر چھوٹے و منجھولے اخبارات اشتہارپانے والے اخبارات کی فہرست سے باہر ہوگئے اور ہزاروں کی تعداد میں اخبار بند ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف آر ۔این۔ آئی میں بھی ایسے سخت قواعد بنا دئے گئے ہیں جس میں کئی اخباروں کو ڈی اے وی پی انپینلمینٹ سے باہر کردیا گیا۔ ادھر پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) کسی بھی شکایت پر اخبارات پر پابندی لگانے سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ ابھی پچھلے سال ہی پی سی آئی نے کئی اخباروں پر فیک نیوز کے بہانے پابندی لگائی تھی جس میں کئی اخباروں کو سسپینڈ بھی کیا گیا۔ اخبار کوئی صنعت نہیں ہے جو کہ دیش کو لوٹ رہی ہو۔ آئے دن نئی نئی ایڈوائزری جاری کی جارہی ہے اور ان کو نہ ماننے پر آپ کو ڈی ۔ پینل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ پورے بھارت میں اخبار آج اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لمبے عرصے تک جمہوریت کے چوتھے ستون اظہار رائے کی آزادی کی نشرواشاعت کرنے والے اخبارات آج خود ہی گھیرا بندی کی حالت میں ہیں۔ زیادہ تر ان اخباروں نے یا تو اپنے کئی ایڈیشن بند کردئے ہیں یا اسٹاف کی تعداد میں کٹوتی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں؟ چھوٹے اور منجھولے اخباروں نے پہلے سے ہی ایسا کرناشروع کردیا تھا۔ اخباروں میں چھٹنی کے سبب ان کے ملازمین کو دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں اس سے بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے ۔پچھلی یوپی اے۔2 سرکار کی مجیٹھیا ویج بورڈ کی سفارشوں کے عمل درآمد سے اخباروں پر مزید بوجھ پڑا اور جب پچھلی سرکار نے بورڈ کی رپورٹ منظور کر اخبارات کو 45 سے50 فیصد تنخواہ بڑھانے کے لئے مجبور کردیا تھا تو اس میں کچھ پیمانے پر فورتھ کلاس وغیرہ کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ بھی دیگر صنعت میں کمائی جانے والی تنخواہ سے دوگنا تگنا سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ میں نے اخبارات کو کن حالات میں سروائیو کرنا (بچانا) پڑ رہا ہے اس کو تفصیل سے اس لئے بتایاتاکہ مودی سرکار ہماری مدد کرے اور ہمیں ڈوبنے سے بچائے۔ مودی سرکار کو بنانے میں اخبارات نے بڑا اہم رول نبھایا تھا اور اب جب ہم اپنے وجو د کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو سرکار کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہمارے سامنے جو ہنگامی مسائل ہیں ان پر غور کرے اور ان کا حل نکالے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟