ہائی وے کنارے شراب کی دکانوں پر پابندی

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد قومی شاہراہوں کے 500 میٹر کے دائرے میں آنے والی شراب کی دکانیں بند ہوں گی. یہ حکم ایک اپریل سے لاگو ہونا ہے. اسی حکم کے تحت 500 میٹر کے دائرے میں آنے والی شراب کی دکانوں کو کوئی ریلیف نہیں دی لیکن سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں ترمیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن علاقوں میں آبادی 20 ہزار سے کم ہو گی تو وہاں شراب کی دکانوں کے فاصلے ہائی وے سے 220 میٹر ہوگی. ساتھ ہی سپریم کورٹ نے نیشنل اسٹیٹ ہائی وے سے 500 میٹر کے دائرے میں تمام ہوٹل۔ریستوران اور پب بھی شراب دکھائے نہیں کر سکیں گے. اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے سپریم کورٹ سے کہا کہ شراب کی دکانوں کے علاوہ ہوٹلوں۔ریستورانوں پر حکم لاگو نہیں کیا جانا چاہئے لیکن عدالت عظمی نے اٹارنی جنرل کی اس رائے کو مسترد کر دیا. چیف جسٹس جے ایس کھیر کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ شراب پی کر گاڑی چلانے کی وجہ ہونے والے سڑک حادثوں کے پیش نظر یہ حکم دیا گیا ہے. گرگرام میں تو اس نئے حکم کے سبب کئی پانچ ستارہ ہوٹل بھی متاثر ہوں گے. نامی ہوٹل جیسے لیلا، ٹرارڈیٹ، ووسٹن، اوبرائے اور کرونی پلازہ میں بھی اس کا اطلاق ہوگا. اس کے علاوہ کئی پب ایسے ہیں جہاں شراب پر سارہ دھندہ ٹکا ہوا ہے اور یہ نوجوانوں کا مقبول پب ہے. سوال یہ اٹھتا ہے کہ کون سا ادارہ 500 میٹر کے اندر آتا ہے؟ یہ طے ایکسائز ڈپارٹ کو کرنا ہوگا. پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ کون کون نیشنل اسٹیٹ ہائی وے کے 500 میٹر کے دائرے میں آتا ہے. ان اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کا کیا ہوگا؟ کیا اس سے بے روزگاری نہیں بڑھے گی. کچھ لوگ اس فیصلے کا خیر مقدم بھی ہیں. وہ کہتے ہیں کہ شراب کے ٹھیکوں کی وجہ سے شام ڈھلتے ہی سماج دشمن عناصر فعال ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
شراب پی کر یہ لوگ آفس اور دکانوں کے آگے خالی بوتلیں اور دیگر اسی پھینک کر گندگی پیدا کرتے ہیں. مارکیٹ میں کھلی شراب کی دکانوں کی وجہ سے ارد گرد کے دکانداروں اور باہر سے آنے والے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔شام ڈھلتے ہی مارکیٹ میں شرابیوں کی بھیڑ لگنا شروع ہو جاتی ہے۔اس سے یہاں آنے والوں خاص کر عورتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔اور کئی بار ؂تو شرابی عورتوں و لڑکیوں پر گندے فقرے کستے ہیں جس وجہ سے کئی بار جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ اس پابندی کے بعد دوسرے دوکاندار خوش ہیں وہیں ان ٹھیکوں کے آس پاس نمکین سوڈا و کھانے پینے کا سامان بیچنے والے مایوس ہیں ۔ان کا کہنا ہے پابندی سے ان کی روزی روٹی پر لات لگ جائیگی۔ہمارا دھندا تو ان شراب کی دکانوں سے ہی چل رہا ہے۔
 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟