اف! ابھی سے مئی جون کی گرمی جھلسانے لگی

مارچ کا مہینہ اب گزرا بھی نہیں کہ سورج کی تپش نے آنکھیں دکھانی شروع کر دی ہیں. اتر پردیش، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں پارا 40 کے پار پہنچ رہا ہے. پیر کے بعد سے ہی دہلی سمیت نو ریاست لو کی زد میں آ گئے ہیں. بھارتی محکمہ موسمیات نے مہاراشٹر میں لو کی وارننگ جاری کی ہے. محکمہ کے مطابق مہاراشٹر، یوپی، ہریانہ، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، راجستھان، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور گجرات کے زیادہ تر حصوں میں لو چل رہی ہے. راجستھان کے مغربی اور مشرقی علاقوں کی صورت حال اب سے سنگین ہونے لگی ہے. مہاراشٹر کے وزیر صحت نے بتایا کہ ریاست کے اورنگ آباد اور شعلہ پور اضلاع میں لو سے لوگوں کے مرنے کی خبر ہے. مہاراشٹر میں ہی پانچ لوگوں کی موت ہو گئی ہے. ادھر دہلی قومی دارالحکومت علاقہ میں درجہ حرارت بڑھنے شروع ہو گیا ہے. دو دنوں سے بڑھ رہے ہیں درجہ حرارت نے اپنے سارے پرانے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، ساتھ ہی گرم ہواؤں کے تھپیڑو نے موسم کے پیٹرن میں ابال لا دیا ہے. محکمہ موسمیات نے جمعرات کو بادل چھانے کا امکان ظاہر کیا تھا، لیکن اس کے برعکس دن بھر کی تپش سے لوگ پسینہ پسینہ رہے. جمعرات کے دن کے آغاز ہی عام دنوں کے مقابلے میں چھ ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت سے ہوئی اور رات آٹھ بجے تک زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 34 ڈگری سینٹی گریڈ بنا ہوا تھا. یہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ مرکری اپنے گزشتہ ریکارڈ توڑنے پر آمادہ ہے. ابھی سے بہت ساری جگہوں کا پارہ 42 ڈگری سینٹی گریڈ کے پار نکل گیا ہے. مانا جا رہا ہے کہ اس سال موسم گرما لمبی چلے گی. موسم کے ماہرین کا خیال ہے کہ گرمی کا یہ دور ال Ni241o کی وجہ سے ہو رہا ہے. جس مارچ میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 34۔35 ڈگری سے آگے نہیں جاتا تھا وہ اب سے 42 ڈگری سے تجاوز کر رہا ہے. گلوبل وارمنگ کے سلسلے میں خدشہ تو پہلے ہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہی رفتار رہی تو اگلے 50 سے 100 سال میں زمین کے درجہ حرارت اتنا بڑھ چکا ہوگا کہ اس کا مقابلہ ناممکن ہو جائے گا. اس خطرے کے لئے ہم خود مجرم ہیں. ہماری اپنی طرز زندگی، جنگل تو کٹے ہی، گھروں میں صحن کیا، پودوں کی کیاری بھی ختم ہو گئی ہے. فلیٹ کلچر نے اس بحران کو اور بڑھا دیا ہے. بجلی کی ابھی سے ڈیمانڈ انتہائی پر پہنچ گئی ہے. ایک طرف گرمی کے بحران دوسری طرف بجلی کٹوتی نے لوگوں کا جینا مشکل ہو جائے گاموسم کے رد و بدل سے بیماریاں پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ادھر مانسون کی کمی بھی ظاہر کی جا رہی ہے اور خشک سالی اور ہنگامی حالات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے سبھی کو ابھی سے طے کرنا ہوگا کہ اس گرمی میں فصل اور زندگی کیسے محفوظ رہ سکے گی؟گھروں میں کاروں کے چلتے اور ائیر کنڈیشنگ سے گرمی میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے لیکن اس سے نکلنے والی گرمی گرین ہاؤس کے اثر کو بڑھا رہی ہے۔ 

انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟