رام جیٹھ ملانی کے 3.8 کروڑ کے بل کی ادائیگی کون کرے

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور تنازعوں کی پوری تاریخ رہی ہے۔ جب سے وہ دہلی کے وزیر اعلی بنے ہیں شاید ہی کوئی ایسا دن گیا ہو جب وہ کسی نہ کسی تنازعہ میں نہ پھنسے ہوں۔ اشتہار کے نام پر سرکاری پیسے کی بربادی کا معاملہ ابھی رکا نہیں تھا کہ رام جیٹھ ملانی کو فیس دینے کے معاملے میں کیجریوال بری طرح گھر گئے ہیں۔ مسئلہ دہلی ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن (ڈی ڈی سی اے) میں کرپشن اور کروڑوں کے گھوٹالے کا ہے۔ الزام سیدھے 13 سال تک ڈی ڈی سی اے کے چیئرمین رہے ارون جیٹلی پر لگائے گئے۔ الزام در الزام کا لمبا دور چلا۔
آخر کار جیٹلی نے کیجریوال پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا۔ پھانس میں آکر یہ معاملہ پھنس گیا ہے کہ کیجریوال کے وکیل رام جیٹھ ملانی کی فیس کون دے گا؟ دہلی سرکار یا اروند کیجریوال؟ ہوا یوں جیٹھ ملانی نے اپنی فیس وصولی کے لئے دسمبر 2016ء میں قریب 3.8 کروڑ روپے کا بل کیجریوال کے پاس بھیجا تھاجس میں 1 کروڑ روپے ریٹینر فیس اور 22 لاکھ روپے فی سماعت کا ذکر تھا۔ یہ بل نائب وزیر اعلی منیش سسودیہ نے پاس کرکے سرکاری خزانے سے ادائیگی کرنے کے احکامات کے ساتھ متعلقہ افسران کو بھیج دیا۔ افسران نے اسے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل کی منظوری کے لئے بھیجا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے قانونی رائے لی تو اس میں یہ بات صاف ہوئی کہ یہ مقدمہ ایک شخص پر ہوا ہے، نہ کہ کسی وزیر اعلی پر۔ خود کیجریوال نے صفائی دی کہ ڈی ڈی سی اے میں بڑے پیمانے پر کرپشن تھا اور کھلاڑیوں کے سلکشن کی شکایت لے کر بچے ان کے پاس آتے تھے۔ دہلی سرکار نے جب اس پرجانچ بٹھائی تو بھاجپا والوں نے کیس کردیا۔ رام جیٹھ ملانی عدالت میں اس کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ رام جیٹھ ملانی کی فیس وہ اپنی جیب سے کیوں دیں گے؟ جنتا بتائے کہ سرکار کو پیسہ دینا چاہئے یا نہیں؟ کیجریوال نے یہ بھی کہا کہ میں نے جو بھی الزام لگائے تھے وہ پبلک مفاد میں اور پبلک عہدے پر وزیر اعلی کی حیثیت سے لگائے تھے اس لئے اس میں کچھ بھی نجی نہیں ہے۔ اس درمیان جیٹھ ملانی نے کہا کہ وہ یہ مقدمہ مفت میں لڑنے کو تیار ہیں کیونکہ کیجریوال ان کے غریب موکل ہیں اور وہ ایسے لوگوں کے لئے مفت خدمات پہلے بھی دیتے رہے ہیں لیکن پہلی بات اگر رام جیٹھ ملانی کومفت میں سیوا دینی ہی تھی تو انہوں نے اتنا لمبا چوڑا بل بھیجا ہی کیوں؟ دوسری بات یہ کہ شاید شری کیجریوال یہ بھول رہے ہیں کہ کورٹ میں جسٹس پی ایس تیجی کی عدالت نے ان کی اس عرضی کو خارج کردیا تھا جو جیٹلی کے ذریعے درج کرائی گئی تھی۔مجرمانہ ہتک عزت کی شکایت میں ٹرائل کورٹ کی طرف سے سمن جاری کئے جانے کے خلاف عرضی داخل کی گئی تھی پچھلے سال19 اکتوبر کو دئے گئے کورٹ کے اس فیصلے نے وزیر اعلی کی طرف سے یہ مانگ اس بنیاد پر کی گئی اس کی تفصیل درج ہے۔ ہائی کورٹ کے ریکارڈ میں کیجریوال نے کہا کہ میں جو لڑائی لڑ رہا ہوں وہ نجی حیثیت سے نہیں لڑ رہا ہوں۔ ویسے بھی یہ دلیل بے معنی ہے کیونکہ یہ سرکاری لڑائی ہے اور سول معاملے دو لوگوں کی نجی لڑائی ہوتی ہے۔ اس میں کہیں سے بھی عہدے کا سوال نہیں آتا۔ یہاں تک کہ جیٹلی نے سول ہتک عزت کا کیس اروند کیجریوال کے خلاف دائر کیا ہے نہ کہ وزیر اعلی کیجریوال کے خلاف۔ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں جس آدرش واد کی دہائی دے کر اور ایمانداری کے سبز باغ دکھا کر کیجریوال مکھیہ منتری بنے تھے اس اخلاقیت کے مبینہ چولے کو انہوں نے کافی کم وقت میں تار تار کردیا۔ 
یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ارون جیٹلی نے جو ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے وہ انہوں نے اپنی نجی حیثیت سے کیا ہے جس میں وکیلوں کی فیس سمیت سارا خرچ وہ خود اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک پیسہ بھی مالیات وزارت یا کسی اور وزارت سے نہیں لیا ہے۔ اروند جی کے نو سکھئے پن کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر فی الحال قریب آدھا درجن ہتک عزت کے کئی دوسرے معاملے عدالت میں چل رہے ہیں۔ دراصل کیجریوال کا سرکاری پیسہ کے بیجا استعمال کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے چائے سموسے کے بل پر کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ خود کے اشتہار جاری کر انہوں نے اخلاقی اور مریادا کے تقاضوں کی دھجیاں پہلے ہی اڑا رکھی ہیں۔ علاج کے نام پر انہوں نے کروڑوں روپے پھونک دئے جبکہ کیجریوال خود دہلی کے سرکاری اسپتال کوعالمی معیار کا بنانے کا دعوی کرتے ہیں۔ ایسے قدم غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں کہ جنتا کو بھڑکا کر ان کے پیسوں کو خود کاموں میں استعمال کرنے کے دن اب لد گئے ہیں۔ یہ بات جتنی جلد اروند کیجریوال سمجھ لیں بہتر ہوگا۔
بھاجپا نے کیجریوال پر پبلک پیسے کی لوٹ اور ڈکیتی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ نجی معاملے میں ادائیگی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے کیسے کی جاسکتی ہے؟ ادھر عام آدمی پارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کیجریوال نے جو بھی الزام لگائے تھے وہ پبلک مفاد میں اور پبلک عہدے پر رہتے ہوئے لگائے تھے اس لئے اس میں کچھ بھی نجی نہیں ہے۔ نجی خلاصے سے عام آدمی پارٹی کی ساکھ کو چوٹ پہنچی ہے۔ عام آدمی پارٹی ہائی کمان کلچر کو ختم کرنے اور اقتدار کے بیجا استعمال کو بند کرنے کے وعدے پر وجود میں آئی تھی بدقسمتی یہ ہے کہ خود اپنی ہی کسوٹیوں پر آج یہ کٹہرے میں کھڑی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟