چاہے جیل بھیج دو پر اگلی تاریخ پر نہیں ہوں گا پیش

یہ پہلا موقع ہے جب کسی توہین کا ملزم کوئی ہائی کورٹ کا کام سپریم کورٹ میں پیش ہوا ہو. میں بات کر رہا ہوں کولکتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سی ایس کرنن کی چیف جسٹس جے ایس کھیرکی صدارت والی سات ججوں کی بنچ کے سامنے جمعہ کو پیش ہونے کی. عدالتی تاریخ میں ایسا یہ پہلا واقعہ ہے. صورت میں سات ججوں کی آئین پیٹھ کے سامنے 50 منٹ سماعت جاری رہی. اس دوران جسٹس کرنن نے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی جج ہوں. پر مجھے دہشت گرد جیسا دکھایا جا رہا ہے. بنچ نے کرنن کو چار ہفتے میں جواب دینے کو کہا ہے کہ وہ معافی مانگنے کو تیار ہیں یا نہیں؟ جواب میں جسٹس کرنن نے پیٹھ کے ساتوں ججوں کے عدالتی حقوق چھیننے اور تمام تنخواہ سے ہر ماہ 50۔50 ہزار روپے کاٹنے کا حکم سنا دیا. اگرچہ اس حکم پر عمل نہیں کرے گا کیونکہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی ?رن کے تمام عدالتی حقوق چھین لئے ہیں. سپریم کورٹ میں دونوں اطراف میں بہت تیکھی بحث ہوئی. صبح سوا 10 بجے کورٹ نمبر ون کا تالا کھلتے ہی کورٹ روم کھچا کھچ بھر گیا. چیف جسٹس جے ایس ?ھے?ر کی صدارت میں سات ججوں کی آئین پیٹھ بیٹھی اور کارروائی شروع ہوئی. چیف نے کہا 246 مسٹر کرنن آپ توہین کیس میں زبانی طور پر جو چاہیں کہہ سکتے ہیں. جسٹس کرنن نے بھی آئینی عہدے پر ہوں. بغیر طرف جانے میرا کام چھین لیا گیا ہے. 20 ججوں کے خلاف شکایت دی تھی. اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی. میں الزام ثابت کر سکتا ہوں. کورٹ کی کارروائی سے میری شہرت چلی گئی. میرا کام لوٹا دیں. جسٹس جے ایس کھیرجب تک کیس چل رہا ہے، عدالتی کام نہیں لوٹا سکتے. آپ الزامات سے کورٹ کی توہین ہوئی ہے. آپ نے وزیر اعظم کو خط لکھا. پریس کانفرنس کی. کہنے پر بھی کورٹ نہیں آئے. اوپر سے کورٹ کے خلاف خط جاری کر دیا. جسٹس کرنن مجھے میرا کام لوٹاے تبھی میں اس پر غور کروں گا. کام نہیں لوٹایا تو میں پہلے کی طرح عام نہیں ہو پاوگا. جسٹس دیپک مشرا 246 مسٹر ?رن، کیا آپ غیر مشروط استغفار؟ ایسا کریں گے تو راحت دینے پر غور ہو سکتا ہے. جسٹس کرنن س کارروائی سے آرٹیکل ۔19 اور 21 کے تحت ملے حقوق روکنا ہوئے ہیں. جسٹس جے ایس کھیرمسٹر کرنن نے کیا ججوں پر لگائے الزام واپس لینا چاہتے ہیں؟ معافی مانگنے کو تیار ہیں یا نہیں؟ جسٹس کرنن شکایت پر کارروائی نہ کرکے مجھے ہی معافی مانگنے کو کہہ رہے ہیں. میرا کام بحال کیا تو غیر مشروط معافی مانگنے پر اپنے خیالات رکھوں گا. جسٹس جے ایس کھیرآپ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں تو کسی ڈاکٹر سے دوا اور مشاورت لے سکتے ہیں. کورٹ میں میڈیکل ریکارڈ پیش کر سکتے ہیں. جسٹس کرنن مجھے کسی ڈاکٹر سے دوا یا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے. میں مکمل طور پر ٹھیک ہوں. آئین پیٹھ آپ کے خلاف سماعت کر رہی ہے. یہ آئین پیٹھ مکمل طور پر غیر آئینی ہے جسٹس کرنن میں نے آئین پیٹھ اور جسٹس کرنن درمیان سوال جواب، الزام تراشیوں کا جو دور چلا اس اہم اقتباسات پیش کر دیئے ہیں. معاملہ پیچیدہ ہے. سپریم کورٹ نے اپنے طویل عدالتی تاریخ میں ایسا کیس پہلے نہ سنا اور نہ ہی اس پر فیصلہ دینے کی ضرورت پڑی. ہندوستانی جمہوریت میں سپریم کورٹ سپریم ادارہ ہے جسے چیلنج نہیں دی جا سکتی. ہماری رائے میں تو یہ معاملہ جسٹس کرنن کے معافی مانگنے سے ختم ہو سکتا ہے. جسٹس کرنن پہلے غیر مشروط مانگیں تو پھر باقی مسائل پر سپریم کورٹ غور کر سکتا ہے. جسٹس کرنن کو ہماری رائے میں سپریم کورٹ کی آئینی پیٹھ کو چیلنج دینا نہ صرف حماقت ہے بلکہ غلط روایت ہے. ایک بار جسٹس ?رن غیر مشروط معافی مانگ لیں تو سپریم کورٹ کو ان جائز شکایات پر غور کرنا چاہئے. خیر یہ تو ہمارے خیالات ہیں ملاحظہ سپریم کورٹ آگے کیا کرتا ہے؟ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟