کسانوں کی موت پر معاوضہ دینا مسئلہ کا حل نہیں

کسانوں کا مسلسل خود کشیاں کرنے کا معاملہ سنگین ہے ۔وقتاًفوقتاًمیں اسی کالم میں مسئلہ اٹھاتا رہاہوں ۔سال 2015میں آٹھ ہزار سے زائد کسانوں نے خود کشی کی ۔ 2014میں یہ تعداد 56۔ 50تھی اس لئے ہر سال یہ معاملہ سنگین ہوتا جارہاہے ۔ یہ تسلی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اس اشو کو سنجیدہ ماناہے اور اس نے سرکاری اسکیموں پر سوال کھڑے کرتے ہوئیکہا کہ معاوضے کا انتظام کرنے کے بجائے سرکار کو یہ یقینی کرنا چاہئے کہ کوئی بھی کسان خود کشی جیسا سنگین قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوں ۔ چیف جسٹس جے ایس کھیر کی رہنمائی والی تین نفری ڈیوژن بینچ نے سرکار سے کہا ہمیں لگتاہے کہ آپ غلط سمت میں جارہے ہیں کسان قرض لیتا ہے لیکن اسے وہ چکا نہیں پاتا لہذا خود کشی کرلیتا ہے او رآپ ان کے گھر والوں کو معاوضہ دیتے ہیں ۔ہمارا خیال یہ ہے کہ متاثرہ کنبے کو معاوضہ حل نہیں ہے بلکہ خود کشی روکنے کی کوشش کی جانی چاہئے اس پر سرکار کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالی سیٹر جنرل بی ایس نرسمہا نے کہا حکومت کئی منصوبے لیکر آئی ہے ا ن کے ذریعہ یہ یقینی بنایاجائے کہ کوئی شخص قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں خود کشی جیسا عمل اٹھانے مجبور نہ ہوں حالانکہ یہ بھی کہاکہ یہ ایسا مالی اسبا ب کے سبب خود کشی کرتے ہیں اور بھی کئی تکلیف دہ وجوہات کے سبب خود کشی کرتے ہیں اور کسانوں کو ان کی پیدوار کی صحیح قیمت نہیں ملتی ۔پتہ نہیں اس حقیقت کو سمجھنے سے کیونکہ انکار کیا جارہاہے ۔ حالیہ مثال لے لیں دیش کے ئی حصوں میں کسانوں کے ٹماٹر اور آلو معمولی دام میں فروخت کرنے پڑ رہے ہیں ایسی نوبت اس لئے آئی کیونکہ ا ن کے سامان کی جائز قیمت نہیں مل رہی ہے یہ پہلی بار نہیں ہوا ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے لیکن اس مسئلے پر سرکاریں ہاتھ کھڑ ے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔کئی بار بینکوں کی مشکل شرائط کی وجہ سے کسان ساہوکاروں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں او رانھیں اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے اپنی جان تک چکانی پڑتی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی سرکاریوں اس مسئلے پر سنجیدہ ہوں اور کسانوں کو بچائیں 
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟