ملکی بغاوت کے مجرم سیمی سرغنہ صفدر ناگوری

ادھر خطرناک دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے سرغنہ بغدادی طرف ہار ماننے کی خبر سے دنیا نے راحت کی تھوڑی سانس لی ہے تو ادھر ہندوستان میں اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی خبروں کے درمیان اندور کی خصوصی عدالت کے فیصلے سے تھوڑا اطمینان محسوس کیا جا سکتا ہے جس غداری اور غیر قانونی طریقے سے ہتھیار رکھنے کے معاملے میں کالعدم تنظیم سیمی (اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا) کے سرغنہ صفدر ناگوری اور اس 10 ساتھیوں کو مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے. ناگوری سمیت تمام دہشت گرد احمد آباد کی سابرمتی جیل میں ہیں اور انہیں اب جیل میں ہی رہنا ہوگا. عدالت نے 84 صفحات کے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایسا پایا گیا ہے کہ ان تمام قانونی اور آئینی طور پر قائم حکومت ہند میں یقین نہیں ہے. ان سرگرمیاں ملک کی سالمیت کے خلاف ہیں. یہ مذہبی بنیاد پر نفرت پھیلا کر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں. ان کا مقصد انسانیت کو گہری چوٹ پہنچانا تھا. بتا دیں کہ سال 2008 میں 26۔27 مئی کی رات اندور کے الگ الگ علاقوں سے سیمی کے 11 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا تھا. ان سے ملی معلومات کی بنیاد پر بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد برآمد کی گئی تھی. ان میں جلیٹن چھڑی، ڈیٹونیٹر، سی ڈی، پین ڈرائیو، قابل اعتراض آڈیو ویڈیو مواد، پستول، دیسی ریوالور اور زندہ کارتوس شامل تھے. 25 مئی 1977 کو علی گڑھ میں قائم اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پہلی بار 2001 میں پابندی لگا تھا. 2008 میں اپنی گرفتاری سے پہلے صفدر ناگوری بہت بڑی دہشت گردانہ وارداتوں کو انجام دے چکا تھا اور بہت سے معاملات میں سازش رچ چکا تھا. جولائی، 2008 میں احمد آباد میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کو انجام دینے میں بھی سیمی کا ہاتھ تھا، جس میں 56 افراد ہلاک ہو گئے تھے. سمی نیٹ ورک کتنا پھیل چکا تھا اس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ ناگوری کی گرفتاری سے پہلے اس نے کیرالہ کے ایرناکولم، گجرات کے پاواگڑھ اور مدھیہ پردیش کے کھنڈوا میں بڑے دہشت گرد تربیتی کیمپ منعقد کئے تھے، جن میں 100 سے زائد مشتبہ نوجوان شامل تھے. 1990 کی دہائی میں سیمی کا نام دہشت گردانہ سرگرمیوں میں آیا تھا اور امریکہ میں ہوئے 9/11 کے دہشت گرد حملے کے بعد 2001 میں اس پر پابندی لگا دیا گیا تھا. واقعی میں انڈین مجاہدین بھی سیمی کا ہی ایک شکل ہے، جسے محدود کیا گیا ہے. آئی ایس کو لے کر یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ بے روزگاری اور کم پڑھے لکھے نوجوان ہی اس تعصب کو آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں. حال ہی میں گجرات کے دو نوجوانوں کی گرفتاری سے یہ نئے سرے سے واضح ہے کہ آئی ایس کی جہادی نظریات سے ?پریرت ہونے والے نوجوان ملک کے کسی بھی حصے میں ہو سکتے ہیں. چونکہ ایسے نوجوان بغیر کسی بیرونی مدد کے آپ کی سطح پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں، اس لئے ان کی نگرانی اور شناخت سے زیادہ مشکل ہے. ان مشکلات کے باوجود پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مستعد رہنا ہوگا. بلاشبہ یہ لازمی ہے کہ انٹرنیٹ پر جہادی ادب اور ایسے ادب کی تلاشی میں مصروف لوگوں کی نگرانی بڑھائی جائے، لیکن اس میں عام لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا. انہیں دیکھنا ہوگا کہ ان کے ارد گرد کوئی ایسا شخص تو نہیں جو جہادی نظریات سے آلودہ ہو رہا ہے. دراصل دنیا آج جس دہشت گردی سے جوجھ رہی ہے، اس کے پیچھے مذہبی تعصب ایک بڑی وجہ ہے، فرق یہ آیا ہے کہ بھارت طویل عرصے سے اس سے برسرپیکار رہا ہے، جسے اب باقی ملک بھی قبول کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں. (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟