قومیت اور اظہار رائے کی آزادی

اظہار رائے کی آزادی کو لے کر جو تنازعہ جے این یو میں 9فروری 2016کو دیش مخالف نعرے بازی سے شرو ع ہوا تھا دراصل تب سے ہی جاری ہے ۔تازہ تنازعہ جے این یو کیمپس کے اندر کشمیر کی آزادی ،ماں درگا کی قابل اعتراض تصویر اور جوانوں کے پوسٹرو ں کو لیکر ہے ۔بد قسمی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کامریڈ طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا کر اور سچائی سے چھیڑ چھاڑ کر کے ہمارے لڑکوں کے دماغ میں جو زہر بھر نے کا کام کررہے ہیں ۔ ہمیں چاہئے آزادی بیشک قابل اعتراض نہیں ہے لیکن آزادی کس سے اور کیسے چاہئے ؟یہ سوال بہت اہم ہے 1947میں بھی ہمیں آزادی چاہئے تھی لیکن وہ انگریزی حکومت کے خلاف تھی جس سے دیش کو آزاد کرانا تھا اگر خالد عمر جیسے بھٹکے لوگوں کو کشمیر کی آزادی چاہئے اور اس کو پانے کے لئے ہر طر ح کے تشدد کے لئے بھی تیار ہیں تو یہ دیش بغاوت کا معاملہ بنتا ہے ۔پچھلے سال افضل گرو کی برسی پروگرام میں جس طرح خالد اینڈ کمپنی نے نعرے بازی کی تھی اور افضل تیرے قاتل زندہ ہیں اور ہم شرمندہ ہیں ہمیں چاہئے آزادی وغیرہ وغیرہ یہ کیسا دیش پریم ہے ؟ا ن کمیونسٹوں او رخود ساختہ سیکولر پسندو ں اور نام نہاد دانشوروں نے یونیورسٹیوںں میں ایسا ماحول خراب کیا ہے کہ اب اسے دہلی یونیورسٹی میں بھی پھیلانے کی کوشش جاری ہے اور کیمپس کا ماحول بگاڑ نے میں لگے ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ افراد کی فریڈم آف اسپیچ کے نام پر ہورہا ہے اب یہ عناصر اظہار رائے کی آزادی کی جھوٹی کہانی گھڑنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
اور اپنے ذاتی اغراض کی کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جانے پر تلے ہوئے ہیں جہاں تک رامجس کالج کا تازہ معاملہ وہ تو اے وی بی پی کی طالبہ کو اور خالد کے پروگرام میں بلائے جانے پر احتجاج کرررہے تھے جو پچھلے سال جے این یو میں افضل گرو کی یا د میں ہوئے پروگرام کے منتظیمین میں سے ایک تھا افضل گرو وہ ہی ہے جس نے ہمارے جمہوریت کے مندر پالیمنٹ ہاؤس پر حملے کی سازش رچی تھی ۔ اب بد قسمتی سے جے این یو میں دیش مخالف عناصر نے بھارت کے ٹکڑے کرنے او رکشمیر کی آزادی مانگ کے نعرے لگائے تھے ان دیش مخالف عناصر کی حرکت کے بعد ،کانگریس و کمیونسٹ اور سیکولر دانشوروں اور ان کے حمایتی میڈیا اور فرقہ عناصر سے ہاتھ ملالیا اس سے یہ ظاہر کہ صرف مودی سرکار کو بد نام کرنے کی سازش ہے کچھ دیش مخالف عناصر کشمیر کی آزاد ی کی وکالت کررہے ہیں جو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے او رکوئی بھی ہندوستانی ایسی سرگرمیوں کو قبول نہیں کرسکتا ۔بد قسمتی سے کانگریس پارٹی میں بھی پی چدمبرم جیسے نیتا ہیں جو علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتے دکھائی پڑتے ہیں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کچھ باہر ی عناصر حالات کا فائدہ اٹھاکر کیمپس کا ماحول بگاڑ نا چاہتے ہیں ۔ ہم گرمہر کور کو دھمکانے والے الفاظ کی مذمت کرتے ہیں ان واقعات کی گہرائی سے جانچ ہونی چاہئے اور قصور واروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے اس کے ساتھ ہی بھارت مخالف عناصر کی حرکتوں کو جائز ٹھہرا نا یا اس کو بڑھاوا دینے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے ۔ میرے والد کو پاکستان نے نہیں مارا ، جنگ نے ماراہے ۔ لکھی پٹی والی تصویر جو گرمہر نے دکھائی اس کا کیا مطلب ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہمارے جوانوں کو کوئی جوابی کارروائی نہیں کرنی چاہئے ، جب پاکستانی ان پر حملے کررہے ہیں ؟ وہ جنگ نہیں تھی بلکہ وہ پاکستانی تھے جنھوں نے گرمہر کے والد مارا تھا انھوں نے دیش کی سلامتی اور اتحاد کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی قیمتی قربانی دی ہے ۔ اس سالمیت کو آج جن عناصر سے خطرہ ہے ، انھیں دیش کے اندر ہی مٹھی بھر کمیونسٹوں اور نام نہاد سیکولر سیٹو ں سے اور خود ساختہ دانشوروں کی حمایت مل رہی ہے ۔ دیش کے مفادات کے خلاف کام کرنے والا کوئی بھی شخص دیش مخالف سرگرمیوں کے زمرے میں آتاہے اور کسی سے بھی دیش بھگت کو مقبول بھٹ ،افضل گرو اور برہان وانی کی قصیدہ خوانی کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہوسکتی ۔ بہتر ہوکی سبھی یہ نہ سمجھیں کہ اظہاررائے کی آزاد ی کے نام پر من مانی ہوسکتی ہے اور نہ ہی عد م اتفاق کے نام پر ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟