9 دن کیلئے 4 ہندوستانی نژاد افراد پر حملے

امریکہ میں نسلی حملے رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ امریکہ میں 9 دنوں کے اندر ہندوستانی نژاد چوتھے شخص پر نسلی حملہ ہوا ہے۔ اس بار نشانا بنے شخص سکھ دیپ رائے جو خود امریکی شہری ہیں۔ نقاب پوش بدمعاشوں نے رائے کو گھر کے باہر گولی مار دی جو ان کے بازو میں لگی۔ انہوں نے بتایا میں گھر کے باہر گاڑی صاف کررہا تھا اسی وقت 6 فٹ لمبا سیاہ فام یہاں آ دھمکا، چلاتے ہوئے کہا یہ دیش چھوڑوں اور گولی ماردی۔حملہ پچھلے جمعہ کی رات 8 بجے ہوا تھا۔ اب جاکر یہ میڈیا میں آیا ہے۔ امریکی پولیس نے تو سکھ نوجوان کا نام تک نہیں بتایا تھا۔ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ٹوئٹ کر بتایا کہ دیپ رائے کے والد ہرپال سنگھ سے بات ہوئی ہے وہ خطرے سے باہر ہیں۔ اس سے پہلے ہوئے نسل پرست حملوں میں ہندوستانی انجینئر شرینواس و کاروباری ہرنیش پٹیل کو امریکہ میں قتل کیا جاچکا ہے۔ شرینواس پر ہوئے حملے کے وقت ان کے دوست آلوک بھی زخمی ہوگئے تھے۔9/11 کے بعد بھی امریکہ میں ایسا ماحول نہیں تھا جو آج بن گیا ہے۔ نیویارک کے سی ایٹل علاقہ میں سکھ فرقے کے لیڈر جسمیت سنگھ کہتے ہیں کہ امریکہ میں نفرت کا ماحول ایسا ہے کہ لوگ ہر وقت خوفزدہ ہیں۔ گالی گلوج اور بدتمیزی اچانک بڑھ گئی ہے۔ ایسا ماحول پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ 9/11 حملوں کے بعد بھی سکھوں پر حملے ہوئے تھے تب انتظامیہ کی سرگرمی سے معاملہ نمٹ گیا تھا لیکن اس بات حالات بالکل الگ ہیں۔ نفرت ۔ کرائم کی بڑھتی وارداتیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے بڑی چنوتی ہیں۔ ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سربن پاورٹی لا سینٹر کے مطابق ٹرمپ کے صدر بننے کے 34 دن کے اندر ہی 1094 نسلی واقعات ہوئے ہیں۔ رپورٹ فروری تک کی ہے۔ دو سال میں اینٹی مسلم ہیڈ گروپ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ 2015ء میں ایسے ہی 34 گروپ تھے جو 2016 ء میں تقریباً تین گنا بڑھے ہیں اور یہ بڑھ کر101 ہوگئے ہیں۔
اسلامی ملکوں پر پابندی لگانے کے بعد ٹرمپ کی تجویز کے بعد ان تنظیموں میں ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔ یہ اس امریکہ کی تصویر ہے جو دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور ملک ہے جس نے ترقی کی نئی کہانی مرتب کی ہے لیکن ایسی حرکات سے امریکہ کا کھوکھلا پن اجاگر ہوتا ہے۔ حالانکہ صدر ٹرمپ نے ہندوستانیوں کے قتل اور ان پر ہوئے حملوں کی مذمت کی ہے لیکن صرف زبانی جمع خرچ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ امریکہ میں اس وقت کے حالات اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ ٹرمپ حکومت کے لئے مشکل وقت ہے اور ان کی سرکار کو جلد ہی کچھ ٹھوس و سنجیدہ قدم دوسرے ملکوں سے آئے لوگوں میں اعتماد قائم کرنے کیلئے اٹھانے ہوں گے۔ بھارت سرکار کو بھی معاملہ کی نزاکت کو دیکھ کر سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا ہوگا۔ امید کی جاتی ہے کہ بہت جلد یہ ماحول بدلے گا اور جلد ہی وہاں حالات بہتر ہوجائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟