لمبے پروسیس کے بعد آخری مرحلے میں پہنچتا یوپی چناؤ

اترپردیش اسمبلی چناؤ کا آخری مرحلے میں 08مارچ ووٹ پڑیں گے ۔11فروری سے شروع ہوئی ووٹنگ اپنے 7مرحلے پورے کرنے جارہی ہے ۔ صوبے کے مہاسنگرام میں 7ویں مرحلے کی جنگ بھی بیحد دلچسپ ہونے والی ہے ہر سیٹ پر الگ الگ تجزیے ہیں ۔ کہیں ذات پات ہے تو کہیں پورانے تجزے سمجھنے کی کوشش ہورہی ہے یہاں 7ضلعوں کی 40 اسمبلی سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی ۔ جن میں یہ ہونی ہے ان میں غازی پور ،وارنسی ، چندولی ،مرزاپور ،ابھدوہی ،سون بھدر ،جون پور حلقے شامل ہیں ۔بھارت میں ہورہے اس اسمبلی انتخابات کو دیکھنے وہ جمہوری عمل سے روبرو ہونے کیلئے ،بنگلہ دیش ،مصر ،کرغستان ،نامیبیا ،اور روس کے چناؤ کے منتظم بلدیاتی اداروں کے نمائندوں نے صوبے کادورہ کیا ۔ اور بھارت میں چناؤ کے انتظام کے مختلف پہلو وں کا ووٹنگ الکٹرانک مشینیں وغیرہ کا باریکی سے جائزہ لیا ۔ یہ نمائندے جہاں چناؤ تیاریوں ،پولنگ بوتھ ،اور چنا ؤ کی پوری کارروائی دیکھ رہے ہیں ۔ان بین الاقوامی نمائندوں نے اقوام متحدہ وکاس پروگرام کے ساتھ ساجھداری میں منعقد کیا ۔اترپردیش اسمبلی چناؤ میں لیڈروں کا قد لوگوں کی پسند اور پارٹیوں کے وعدے اور بنیادی اشو ز کا پتہ 11مارچ چل جائے گا 18سے 25سال کے لڑکے ترقی کے حمایتی نظر آئے ان کو لگتا ہے وزیر اعظم نریند مودی دیش کیلئے اچھا کام کررہے ہیں ۔حالانکہ وہ یہ نہیں بتاپائیں کہ مودی نے کونسے اچھے کام کئے ہیں ۔مانا جارہاتھا کہ5ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے پہلے ہوئی نوٹ بندی چناؤ کے دوران بڑا اشو ہوگا لیکن لگتاہے ایسا نہیں ہوا ۔دیہات میں اور شہروں میں ایک بڑا طبقہ نوٹ بندی کا حمایتی نظر آیا زیادہ تر دیہاتیوں کا کاکہنا تھا کہ نوٹ بندی سے دیش کا بہت فائدہ ہواہے اور آگے بھی جاری رہے گا ۔ عام خیال یہ ہیں کہ اکھلیش یادو نے کام کیا ہے لیکن ان کے اندورنی کنبہ کے جھگڑے نے انکا کھیل بگاڑ دیا ہے ایسا لگتاہے کہ لوگ مانتے ہیں کہ مودی کاقد بڑا ہے اور پارٹی سے اوپر ہے ۔مزیدار بات یہ ہے کہ زیاتر مقامات پرعورتیں ذات پرستی کے خانے سے خود کو تھوڑا باہر رکھتی نظر آئیں جبکہ مردذات پرستی پر اڑے دکھائی دےئے مطلب صاف ہے کہ اس چناؤ میں عورتیں اپنے حساب سے فیصلہ کررہی ہے دیہات میں سپا ،کانگریس اتحاد کے بعد بھی کوئی پارٹی کی بات نہیں کررہاہے ۔ اور اکھیلش کا تذکرہ بھی محدو د رہا ۔ چوکانے والی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی پریشانیاں گنانے میں بھی زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی ۔بجلی ،سڑک ،پانی ، کے اشو ’غائب رہے اورروز گار کا مسئلہ سامنے آیا لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے ۔اودھ کے حصہ اور مشرقی یوپی کو پورے علاقے میں امیٹھی کے صنعتی علاقے جگدیش پور کو چھوڑدیں تو کہیں بھی بڑی صنعت نہیں ہے ۔وارنسی میں وزیر اعظم کا روڈ شو تھا اسی دن راہل اکھلیش کا بھی روڈ شو تھا مایاوتی کی ریلی تھی مشرقی اترپردیش کے وارنسی شہر میں مودی کے روڈ شو میں بہت زیادہ لوگ آئے اور بھاجپا کے حق ووٹ کے لئے اپیل کی گئی ۔اترپردیش میں بھاجپا 15برس سے اقتدار سے باہر ہے اس کاکہناہے ایک گھنٹہ تک چلے روڈ شو سے 8مارچ کو ہونے والے آخری دورکے چناؤ میں 40سیٹوں پر کافی فائدہ ہوگا ۔اس کے بارے میں علاقے چینلوں نے سیدھے طور پر اس روڈ شو کو دکھایا ۔یوپی چناؤ میں کاشی بہت اہم بن گیا ہے پی ایم کو پہلی بار یہاں اپنا روڈ شو کرنا پڑا دودن تک یہاں رہے بحث یہ ہورہی ہے کہ مودی جی اور راہل اکھلیش کے روڈ شو میں کس کا روڈ شو بھاری پڑا ؟وزیر اعظم نے کہاکہ ان کے روڈ شو میں جس طر ح بھیڑ آئی ہے وہ تو کمال ہی ہوگیا ہے اکھیلش کا دعوی ہے کہ ہمارے روڈ شو کے مقابلے میں پی ایم کا روڈ شو بہت ہی چھوٹا تھا ۔ادھر مایاوتی نے روڈ شو کو تماش بینوں کی بھیڑ بتایا ۔ وزیر اعظم کا انتحابی حلقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کا چناؤ بھاجپا کے ساتھ وزیر اعظم کی ساکھ سے جوڑ گیا ہے ۔ بھلے ہی بی جے پی یوپی جیت لے لیکن بنارس میں مظاہر اچھا نہیں رہا تو یہ مودی کی نجی ہار مانی جائے گی ۔ اکھلیش کی حکمت عملی ہے کہ جارحانہ تیور دکھاکر دباؤ میں لایا جائے اس لئے انھوں نے مودی کو گھیر نے میں پوری طاقت لگادی ہے اکھلیش پورا دم خم لگا کر آخری مرحلے کے چناؤ میں اپنی بڑھت لینا چاہتے ہیں یہاں لڑائی بی جے پی اور سپا کے درمیان سمٹی تو بسپا مقابلے سے باہر ہونے کاخطرہ ہے جو مایاوتی نہیں چائیں گی ۔بنارس کے ماحول سے پروانچل کی باقی سیٹوں پر ماحول بننا ہے مایا مودی سے لڑتے ہوئے دکھائی دینا چاہتی ہیں کل ملاکر کہاں جائے گا کہ بیشک اکھلیش نے شہر سے گاؤ ں تک کام تو کیا ہے لوگ یہ مان رہے ہیں لیکن قد میں مودی آگے ہیں ۔ وہیں راہل گاندھی کا تذکرہ کم ہے ۔ دکھیں 11مارچ کو اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ 
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟