اکھلیش یادو کے نئے تیور

اترپردیش میں جوں جوں اسمبلی چناؤ قریب آتے جارہے ہیں صوبے کی سیاست میں ابال آتا دکھائی دینے لگا ہے۔ سبھی پارٹیوں کی نظر پسماندہ ، دلت اور اقلیتی ووٹروں کو لبھانے میں لگی ہے۔ اکھلیش یادو کو ہی لے لیجئے ان کا ایک نیا چہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ معاملہ چاہے ان کے کیبنٹ میں توسیع کا ہویا مختار انصاری کی قیادت والی قومی ایکتا پارٹی کا، سپا میں انضمام کا ہو اس کو لیکر پر زور مخالفت ہورہی یا پھر وزیر اعلی کے اپنے چاچا اور ریاست کے وزیر شیو پال سنگھ یادو کے خلاف جانے کا ہو، یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ شیو پال قومی ایکتا پارٹی کو سپا میں شامل کرناچاہتے تھے لیکن اکھلیش ایسا نہیں چاہتے تھے۔ یہ ٹکراؤ اتنا بڑھ گیا کہ انضمام میں اہم کردار نبھانے والے بلرام سنگھ یادو کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ انہوں نے یہ بھی صاف کیا کہ مختار انصاری جیسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی میں ان کے شامل ہونے کی مخالفت کی گئی۔ عام طور پر اپنے عہد کے آخری برس میں وزیراعلی چناوی تیاریوں کو ذہن میں رکھ کر ہی اپنی کیبنٹ میں ردوبدل کرتے ہیں لیکن اکھلیش نے اپنے ساتویں اور عہد کے ممکنہ آخری ردوبدل میں جن حالات میں محض ایک ہفتے پہلے ہٹائے گئے بلرام سنگھ یادو کو دوبارہ کیبنٹ میں شامل کیا ، اس سے ان کی مجبوری جھلکتی ہے۔ اس لحاظ سے جیل میں بند مختار انصاری کی پارٹی ایکتا دل کا سپا میں انضمام روکنے کے لئے سخت رخ اختیارکرنا صحیح ہے۔ دراصل 2012ء کے اسمبلی چناؤ میں پارٹی کو واضح اکثریت دلانے میں اکھلیش کی نوجوان صاف ستھری ساکھ اور سخت محنت ذمہ دار تھی لیکن وزیر اعلی بننے کے بعد چوطرفہ خاندانی دباؤ کے چلتے ، حکام کی تعیناتی کو لیکر پالیسی ساز فیصلوں تک میں اکھلیش پھسلتے نظر آئے۔ اب اکھلیش نے ہمت سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ عوام نے مجھے چن کر بھیجا ہے ، نیتا جی نے مکھیہ منتری کی کرسی پر بٹھایا ہے جو مجھے ٹھیک لگے گا وہ میں کروں گا۔ فیصلہ چاچا بھتیجے کا نہیں بلکہ سماج وادی پارٹی کی سرکار کا ہوتا ہے اور سرکار وہی فیصلہ لیتی ہے جو عوام کے مفاد میں ہے۔ الزام تو لگتے ہی رہتے ہیں ایک بار تو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کو بھی لوک سبھا میں غنڈہ کہہ دیاگیا تھا، اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ لوہیا جی غنڈے تھے۔سپا اور بسپا اترپردیش کی روایتی طورسے دو بڑی حریف پارٹیاں ہیں اور دونوں کو اس کا احساس ہوگا کہ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا نے 73 سیٹ جیت کر اپنے لئے بڑی جگہ بنالی۔ کیبنٹ ردو بدل میں اکھلیش نے نئے تیور دکھانے شروع کردئے ہیں دیکھئے آگے آگے کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟