ترکی میں اس سال کا 14 واں آتنکی حملہ

یوروپ اب پوری طرح سے دہشت گردی کی زد میں ہوچکا ہے۔ منگلوار کی شام ترکی کی راجدھانی استنبول میں کمال اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈے پرآٹومیٹک رائفلوں سے مسلح فدائی حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے 41 لوگوں کی جان لے لی جس میں غیر ملکی شہری بھی تھے۔ خبروں کے مطابق یہ فدائین حملہ تھا۔ تین حملہ آور ٹیکسی میں آئے اور مسافروں پر تابڑتوڑ گولیاں چلانا شروع کردیں۔ پولیس نے جب فائرنگ کی تو حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ ترکی میں آتنکی حملوں میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ پچھلے ایک سال میں کم سے کم 14 آتنکی حملے ہوچکے ہیں ان میں 200 لوگوں سے زیادہ کی موت ہوچکی ہے۔ ان حملوں میں کم سے کم 8حملے کرد لڑاکو نے کئے۔ اس کے علاوہ بھیڑ بھاڑ والے مشہور علاقوں میں حملوں کے پیچھے داعش کا ہاتھ رہا ہے۔ یوروپ کے کئی بڑے شہروں میں آئی ایس نے آتنکی حملے کئے ہیں۔ پچھلے دنوں بلجیم کے بروسیلس میں ہوئے آتنکی حملے اور استنبول میں حملے میں کئی یکسانیتیں ہیں جنہیں ایک ہی دہشت گرد گروپ کا ہاتھ ہونے کا ثبوت مانا جاسکتا ہے۔ دونوں ہی حملوں میں تین آتنکی شامل تھے۔ دونوں ہی حملوں میں آتنک وادیوں نے ہوائی اڈے میں پہلے اندھا دھند فائرنگ کی پھر خود کو اڑالیا۔ بروسیلس میں تیسرے آتنکی نے جہاں پاس کے میٹرو اسٹیشن میں فدائی دھماکہ کیا وہیں استنبول میں تیسرے آتنکی نے پارکنگ لاٹ میں اپنے آپ کو اڑایا۔ جہاں یوروپ ہی آتنک وادی حملوں کے اندیشے کے نتیجوں سے لڑ رہا ہے وہاں ترکی خاص طور سے غیر محفوظ ہے۔ ترکی ۔ یوروپ اور ایشیا کی سرحد پر ہے ۔ وہ دونوں کے درمیان آمدورفت کا مرکز ہے۔ ان کی سرحدیں عراق اور شام سے ملتی ہیں جہاں کافی حصے میں اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کا راج ہے ۔شام اور عراق سے یوروپ جانے والے مہاجرین بھی ترکی کے راستے ہی جاتے ہیں اور ان مہاجروں کے درمیان ممکن ہے کچھ آتنک وادی بھی ہوں اس وجہ سے بھی ترکی میں پہلے بھی حملے ہوچکے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈہ ترکی کا سب سے بڑا اور یوروپ کا تیسراسب سے مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ اس ہوائی اڈہ کی ویب سائٹ کے مطابق پچھلے سال4 کروڑ10 لاکھ مسافر یہاں سے گزرے۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ استنبول میں یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب رمضان کا مقدس مہینہ چل رہا ہے جو مسلم فرقے کے لئے سب سے پاک مہینہ مانا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں افغانستان میں طالبان نے بھی قہر برپایا وہ بھی رمضان کے مہینے میں ہوا۔ دراصل طالبان اور آئی ایس جیسی تنظیموں کے لئے اسلام کو صرف اپنی گروہ بندی و اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کے اصولوں اور مسلم فرقے کی مذہبی عقیدتوں سے ان کا کوئی میل نہیں ہے۔ ترکی میں آتنکی حملے کے بعد حیدر آباد میں آئی ایس کے 11 مشتبہ آتنک وادیوں کی گرفتاری سے ظاہر ہے کہ مغربی ایشیا میں بڑھتے حملوں کے بعد جہاں آتنکی جواہی کارروائی تیز کررہے ہیں وہیں ان کی سرگرمیوں کا دائرہ بھی پھیل رہا ہے۔ حالانکہ استنبول میں حملے کی ذمہ داری کسی آتنکی تنظیم نے نہیں لی ہے لیکن وہاں کے وزیر اعظم طیب نے اس میں آئی ایس کا ہاتھ ہونے کا دعوی کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے یہ حملہ آتنک کے خلاف لڑائی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہونے والا ہے۔ صاف ہے کہ شام پر ہونے والے حملے میں روس کی سانجھیداری پر اعتراض رکھنے اور روسی جہاز کو مار گرانے والا ترکی حملہ کے بارے میں نئے سرے سے سوچنے پر مجبور ہوگا اور ترکی کو اپنا نظریہ اور حکمت عملی بدلنی ہوگی۔ یہ اچھے اور برے آتنک وادی کا فرق ختم کرنا ہوگا۔ پچھلے دنوں جب آئی ایس کا سرغنہ ابو بکر البغدادی کو مار گرانے کی خبر مغربی میڈیا میں آئی تھی جس کا سہرہ لیتے ہوئے امریکی صدر براک اوبامہ نے گروپ کی اعلی لیڈر شپ کو ختم کرنے کا دعوی کیا تھا، تو لگا تھا کہ آئی ایس کمزور ہوا ہے۔ لیکن تازہ حملے نے یہ جتا دیا کہ کچھ اقتصادی اور لیڈر شپ سے متعلق نقصان کے باوجود حملہ کرنے کی اس کی صلاحیت برقرار ہے۔ حملے کا مطلب یہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ آئی ایس کی طاقت الٹے بڑھ رہی ہے ۔
بیشک عراق اور شام میں اس کا تیزی سے صفایا ہورہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا آئی ایس کو کم کرکے دیکھنا شروع کردے۔ دنیا کے کئی دیشوں میں اسلامک اسٹیٹ کے حمایتی موجود ہیں اور بوکھلاہٹ میں وہ خطرناک حملے کرسکتے ہیں۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا کے سبھی دیش اپنی سلامتی پر زیادہ دھیان دیں اور دہشت گردی کے خلاف آپسی تعاون بڑھائیں۔ آنے والے دن زیادہ چیلنج بھرے ہوسکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟