یوروپی یونین سے الگ ہو گریٹ برٹین

دوسری جنگ عظیم کے بعد برٹین میں یوروپی یونین سے باہر نکلنے (بریکسٹ ) کے لئے ہوا ریفرینڈم دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ یہ ایک ایسا ریفرنڈم ہے جس کے دور رس نتائج ہوں گے۔ اس کے نتیجوں کا جائزہ و نتائج کئی مہینوں تک تجزیہ نگار تجزیہ کرتے رہیں گے۔ موٹے طور پر کچھ اثرات جلد سامنے آسکتے ہیں۔ سب سے پہلے بتا دیں کہ آخر یہ ریفرنڈم تھا کیا؟23 جون یعنی جمعرات کو برطانیہ میں ای یو (یوروپی یونین) کے ساتھ رہنے یا نکلنے کے لئے برطانیہ کی عوام نے ووٹ ڈالا۔ برطانیہ کے ساتھ ساتھ28 دیشوں کے گروپ یوروپی یونین کی تاریخ کی ایک اہم واقعہ تھا۔ ووٹروں کو طے کرنا تھا برطانیہ یوروپی یونین میں بنا رہے گا یا نہیں؟ کیا ہے یوروپی یونین، یہ یوروپی برصغیر میں واقع 28 ملکوں کا سیاسی اور اقتصادی آرگنائزیشن ہے۔ اس کی الگ کرنسی (یورو) پارلیمنٹ، سینٹرل بینک، کورٹ ہیں۔ ای یو نے اندرونی طور سے ایک بازار اور معیشت بنائی ہوئی ہے۔ اس کے قانون سبھی ممبروں پر یکساں طور پر نافذ ہوتے ہیں۔ گرین لینڈ کے بعد ای یو سے باہر نکلنے والا برطانیہ دوسرا دیش ہے۔ برطانیہ میں ریفرنڈم سے الگ ہونے کے حق میں 51.9 فیصدی ووٹ پڑے۔ حالانکہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے یوروپی یونین میں بنے رہنے کے حق میں کافی سرگرمی کے ساتھ کمپین چلائی تھی۔ عوامی رائے شماری کے نتائج کا سرکاری طور پر کچھ دیر بعد اپنا مختصر بیان دینے کے لئے کیمرون 10 ڈاؤن اسٹریٹ سے باہر نکلے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دینے کی اپنی رائے ظاہر کردی کہ نئے وزیر اعظم یوروپی فیڈریشن سے باہر نکلنے کی کارروائی شروع کرنے کے لئے اکتوبر میں عہدہ سنبھالیں گے۔ جنتا کا احترام ہونا چاہئے۔ برطانیہ ای یو سے باہر کیوں نکلا اس کے اسباب کا تجزیہ تو لمبے وقت تک چلے گا لیکن موٹے طور پر ایک بڑی وجہ برطانیہ میں خرچہ رہا۔ ای یو سے الگ ہونے کے بعد برطانیہ کو99 ہزار 300 کروڑ روپے سالانہ کی بچت ہوگی۔ یہ رقم برطانیہ کو ای یو میں بننے رہنے کے لئے ممبر شپ فیس کے طور پر چکانی پڑتی تھی۔یوروپی یونین میں جاری افسر شاہی برطانیہ کے لوگوں کو بالکل پسند نہیں تھی۔ بریکسٹ کی حمایت کررہے لوگوں کا کہنا ہے کہ یوروپی یونین تاناشاہی رویہ اپناتی ہے۔ صرف کچھ افسر مل کر برطانیہ سمیت 28 دیشوں کے لوگوں کا مستقبل طے کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یوروپی یونین میں قریب10 ہزار افسر کام کرتے ہیں ان میں سے کئی سابق سیاستداں ہیں اور اپنے دیش میں سیاسی پاری ختم ہونے کے بعد یہ لیڈر یوروپی یونین کا حصہ بن جاتے ہیں اور موٹی تنخواہ لیتے ہیں۔ بریکسٹ کی مانگ کررہے لوگوں کا دعوی ہے کہ یوروپی یونین میں کام کرنے والے زیادہ تر افسروں کی تنخواہ، برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے زیادہ ہے۔ یوروپی یونین کے ممبر ان پارلیمنٹ کو19 ہزار روپے یومیہ بھتہ ملتا ہے اور سال بھر میں الگ سے خرچ کے لئے 31 لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ اسٹاف رکھنے کے خرچ کے نام پر ان ممبران کو سال بھر میں 1 کروڑ 70 لاکھ روپے الگ سے ملتے ہیں۔یوروپی یونین سے الگ ہونے کے بعد اب برطانیہ کو امریکہ اور بھارت جیسے ملکوں سے آزاد تجارت کرنے کی چھوٹ مل گئی ہے۔ برطانیہ میں فی الحال 50 فیصد سے بھی زیادہ قانون یوروپی یونین کے ہی نافذ ہیں۔ یوروپی یونین کے مقابلے برطانیہ باقی دنیا کو قریب دو گنا سے زیادہ درآمدات کرتا ہے۔ ای یو سے الگ ہونے کی مہم کی قیادت بہت حد تک لندن کے سابق میئر بورس کی تھی۔ دوسری طرف کہنا ہے کہ برطانیہ کی پہچان ، آزادی اور کلچر کو بچائے رکھنے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ یہ لوگ تارکین وطن کی بھی مخالفت کررہے ہیں۔سن 2008ء کی مندی کے بعدیہ احتجاج اور تیز ہوگیا ہے۔ برطانیہ کو تقریباً 9 ارب ڈالر یوروپی یونین کے بجٹ میں دینے ہوتے ہیں۔ اس کی بھی مخالفت ہورہی ہے۔ یوروپی یونین کے اس ریفرنڈم کے فیصلے کا سیاسی پہلو بھی ہے۔ یوروپی یونین ہونے کے برطانوی عوام کے فیصلے کے بعد ای یو کے لئے اور بری خبر آئی ہے۔ ڈچ اینٹی امگریشن لیڈر گاڈ وائلس نے بریکسٹ کے نتیجے کے بعد نیدر لینڈ میں بھی ای یو کو لیکر ریفرنڈم کرانے کی مانگ کی ہے۔ سینئر یوروپی حکام نے خفیہ طریقے سے خبردار کیا ہے کہ برطانیہ کی طرز پر کئی دیش یوروپی یونین سے الگ ہونے کی راہ پر بڑھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک انفکشن کی شکل لے سکتا ہے۔ ادھر خود برطانیہ کے اس فیصلے سے برطانیہ کے سیاسی مستقبل اور اتحاد پر اثر پڑ سکتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس ریفرنڈم کے دوران ووٹنگ کا جو پیٹرن دیکھا گیا اس سے صاف ہے اسکاٹ لینڈ اور نارتھ آئر لینڈ کے لوگوں نے یوروپی یونین کے حق میں رہنے کو ووٹ دیا۔ برطانیہ سے الگ ہونے کی آہٹ لمبے عرصے سے سنائی دے رہی ہے۔ نارتھ آئرلینڈ میں پچھلے کئی دہائیوں سے برطانیہ سے الگ ہونے کی تحریک چل رہی ہے تو دو سال پہلے اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے الگ ہونے کا ریفرنڈم معمولی ووٹ سے گر گیا تھا۔ اب وہاں ایک دو سال میں پھر سے ریفرنڈم کرانے کی مانگ زور پکڑ رہی ہے۔ برطانیہ کے اس ریفرنڈم کا اثر پوری دنیا کی معیشت پر پڑے گا۔ بھارت پر بھی اس کا سیدھا اثر پڑ سکتا ہے۔ برطانیہ بھارت کا تیسرا سب سے بڑا سرمایہ کار ملک ہے۔ برطانیہ میں اس وقت 800 سے زیادہ ہندوستانی کمپنیاں کاروبار کررہی ہیں۔ برطانیہ میں ہندوستانی کاروباریوں نے 2 لاکھ47 ہزار کروڑ روپے کا داؤ لگا رکھا ہے۔ ہندوستانی کمپنیاں برطانیہ میں ایک بڑی وجہ ہیں۔ برطانیہ کے راستے یہ کمپنیاں یوروپ کے 28 ملکوں کے بازارتک سیدھی پہنچتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟