ہائی کورٹ کے فیصلے سے اصل جھٹکا تو دہلی کے شہریوں کو لگا

دہلی ہائی کورٹ نے دہلی کی تینوں پرائیویٹ بجلی کمپنیوں (ڈسکام) کے کھاتوں کی جانچ سی اے جی سے کروانے کے معاملے میں دہلی حکومت کو زبردست جھٹکا دیا ہے۔ عدالت کی طرف سے دہلی سرکار کے ان کمپنیوں کے کھاتوں کی جانچ کرانے سے متعلق فیصلے سے اصل جھٹکا تو دہلی کے عوام کو لگا ہے۔ یہ فیصلہ قانونی خامیوں سے اس فیصلے کے بھی خلاف ہے جو عزت مآب سپریم کورٹ نے اسی موضوع پر دیا تھا۔ پچھلے سال 17 اپریل کو سپریم کورٹ کی جسٹس رادھا کرشن اور جسٹس وکرم جیت سین پر مشتمل بنچ نے دوبجلی کمپنیوں کے رول کو خارج کردیا تھا۔جس میں ان دو کمپنیوں نے دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا تھا کہ سرکار کو ہمارے کھاتوں کی جانچ سی اے جی سے کروانے کا حکم دیا ہے، یہ غلط ہے۔ آج عزت مآب ہائی کورٹ کہتی ہے کہ نجلی بجلی کمپنیوں کی آڈٹ سی اے جی نہیں کرسکتی۔ اس کا ایک مضر نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دہلی کی عوام نے جو سستی بجلی کی امید لگائی تھی وہ شاید اب نہ ہوپائے؟ کیا اس فیصلے میں ’آپ‘ سرکار نے نا سمجھی یا سوچی سمجھی چال کے ساتھ فیصلے میں مدد کی؟ بھاجپا کے دہلی پردیش پردھان ستیش اپادھیائے نے الزام لگایا ہے کہ بجلی کمپنیوں کے آڈٹ کے معاملے میں دہلی سرکار جھوٹ بول رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کیجریوال 2012ء سے دعوی کررہے ہیں کہ بجلی کمپنیوں کا سی اے جی آڈٹ ہوسکتا ہے۔ سال2013-14 اور 15میں بھی وہ یہی دوہراتے رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اب کی بار سرکار بننے کے بعد سرکاری وکیلوں اور ڈسکام بورڈ میں سرکاری نمائندوں نے نجی بجلی کمپنیوں سے سانٹھ گانٹھ کرلی ہے۔ہائیکورٹ کے نوٹس میںیہ معاملہ لایا ہی نہیں گیا کہ پاور ڈسکام دہلی سرکار اور پرائیویٹ بجلی کمپنیوں کی مشترکہ سانجھے داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے فیصلہ ڈسکام کے حق میں کردیا۔ پچھلے دنوں سی اے جی کی انتم رپورٹ لیک ہوئی تھی جس میں سامنے آیا تھا کہ ڈسکام نے اپنا خسارہ قریب8 ہزار کروڑ روپے بڑھا کردکھایا ہے۔ اس انتم رپورٹ کے بعد دہلی سرکار نے اپنے تیور بجلی کمپنیوں کے تئیں اور سخت کرنے کا ڈرامہ کیا اور کہا تھا کہ سی اے جی آڈٹ رپورٹ آنے کے بعد اس رقم کو ڈسکام سے واپس لے لی جائے گی اور دہلی کی عوام کو سستی بجلی دستیاب کرائی جائے گی۔ ہائی کورٹ میں وزیر اعلی اروند کیجریوال کی قیادت والی سرکار نے ڈسکام کے کھاتوں میں مبینہ گڑ بڑیوں کو اجاگر کرنے کیلئے سی اے جی آڈٹ کرانے کی دلیل رکھی تھی۔ چیف جسٹس جی روہنی اور جسٹس آر ایس ایڈلو کی بنچ نے صاف کردیا کہ ڈی ای آر سی کوہی ڈسکام کے کھاتوں کی جانچ کا حق ہے اور ریاستی سرکار نے غلط طریقے سے ان کے کھاتوں کی جانچ کے احکامات دئے ہیں۔ عدالت نے کہا سرکار نے جس کی بھی صلاح پر سی اے جی کو کھاتوں کی جانچ کے احکامات دئے تھے اس نے سرکار کو گمراہ کیا۔ عدالت نے سرکار کی اس دلیل کو بھی مسترد کردیا کہ ڈسکام میں کافی کرپشن ہوا ہے اور اسی وجہ سے ان کے کھاتوں کی جانچ ضروری ہے۔ عدالت نے اپنے 139 صفحات کے فیصلے میں کہا کہ ڈی ای آر سی اگر ایک بار ڈسکام کے ذریعے پیش خرچ کو منظوری دیتی ہے تو کس طرح سی اے جی کو الگ نتیجے پر پہنچنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ وہ دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے انہوں نے کہا عوام کے مفاد میں اسے انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ دہلی والوں کے مفاد میں نہیں ہے، امید کی جائے کہ عزت مآب سپریم کورٹ کمپنی کی خانہ پوریوں سے اوپر اٹھ کر مفاد عامہ میں دہلی کی عوام کے مفاد میں فیصلہ کرے گی۔ مفاد عامہ ہی جمہوریت میں سب سے اوپر ہوتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟