ایوارڈ واپسی گینگ کو سرکار نے دیا کرارا جواب

دیش میں بڑھتے عدم تحمل کا حوالہ دیتے ہوئے قومی ایوارڈ لوٹانے والے مصنفوں، آرٹسٹوں، فلم سازوں، مورخوں اور سائنسدانوں کے خلاف اب مرکزی حکومت نے بھی جوابی مورچہ کھول دیا ہے۔حکومت کے تین بڑے لیڈروں و مرکزی وزرا ارون جیٹلی ،راجناتھ سنگھ اور وینکیانائیڈو نے اعزازات واپسی پر زبردست حملہ کیا ہے۔ جیٹلی کا کہنا ہے کہ دیش میں حالات بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور احتجاج کرنے والے دراصل بھاجپا کے مخالفین ہیں۔ ان میں سے کچھ تو لوک سبھا چناؤ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف کمپین چلانے وارانسی تک گئے تھے۔ لیفٹ پارٹیوں کی بالادستی کرنے کاتذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا جس طرح سے ایوارڈ یہ لوگ لوٹا رہے ہیں وہ بہار اسمبلی چناؤ میں بھاجپا مخالف ہوا بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ایوارڈ واپسی کے ذریعے احتجاج کو سیاسی سازش قراردیا۔ انہوں نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ لوگ تب کہاں تھے جب کانگریس عہد میں فرقہ وارانی فسادات ہوئے تھے ۔ یہ سب سیاسی اسباب سے ہورہا ہے۔ ایسے ہی دوسرے وزیر وینکیانائیڈو نے بڑھتی غیر رواداری کا حوالہ دیتے ہوئے ایوارڈ واپس کرنے والوں پر کٹاش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب گمراہ کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ لوگ سرکار کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعے چلائی جارہی منصوبہ بند مہم میں شامل ہیں۔ یہ لوگ مودی کی کامیابی کو ہضم نہیں کرپا رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ وزیر اعظم کامیاب ہوں۔ ادھر دیش میں بڑھتے عدم تحمل اور ایف ٹی آئی آئی کے آندولن کاری طلبا کو اشو بنا کر قومی ایوارڈ واپس کرنے والے فلمسازوں کو اداکار انوپم کھیر نے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ انہوں نے فلمی ہستیوں کے اس قدم کو ایک خاص ایجنڈے سے اسپانسر قراردیا۔ کھیر نے ان ہدایتکاروں کے گروپ کو ایوارڈ واپسی گینگ سے تشبیہ دی ہے۔چنڈی گڑھ سے بھاجپا ایم پی کرن کھیر کے شوہر انوپم کھیر کا کہنا ہے کہ جو لوگ نریندر مودی کو پی ایم کے عہدے پر کبھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے ان سبھی نے ایوارڈ واپسی گینگ جوائن کرلیا ہے۔ ان کے مطابق ایوارڈ واپسی گینگ کے کچھ افراد نے جب کانگریس اقتدار میں آئی تو مجھے سینسر بورڈ سے ہٹوانے میں اہم رول نبھایا تھا۔ بقول انوپم کھیر کے اس گینگ نے نہ صرف سرکار کی توہین کی بلکہ ان لوگوں نے اپنی فلموں کو دیکھنے والی جیوری اور جیوری کے چیئرمین اور ناظرین کی بھی بے عزتی کی ہے۔ سوشل میڈیا میں اس اشو پر بڑی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ایک واقف کار نے سوال کیا کہ اس ایوارڈ واپسی گینگ میں سے کتنوں نے ایوارڈ رقم واپس کی؟ کتنوں نے جنہیں سرکاری مکان ملے ہوئے ہیں وہ خالی کئے ہیں؟ ایوارڈ واپسی کی اس مہم میں شامل لوگ موٹے طور پر جن واقعات کا ذکر کررہے ہیں ان میں سے ایک دادری کا واقعہ ہے اور دوسرا کرناٹک میں ایم ایم کلبرگی اور اس سے پہلے مہاراشٹر میں نریندر دوبھولکر کا قتل ہے۔اس کے علاوہ گؤ ود اور گؤ ماس کھانے کا ایک اشو بنایا گیا لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے دوبھولکر کا قتل تب ہوا جب مہاراشٹر اور مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔کلبرگی کا قتل کانگریس حکمراں کرناٹک ریاست میں ہوا اور دادری اترپردیش میں ہے۔ قانون و نظام کا معاملہ ریاستی سرکار کا موضوع ہے اور ان سبھی واقعات سے نہ تو نریندر مودی کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی مرکزی سرکار کا۔ زیادہ تر ایوارڈ واپسی گینگ کے افراد لیفٹ نظریہ رکھنے والے نمائندگی کرتے ہیں، ہمیں یہ بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ ان میں سے کئی تو وہ ہیں جنہوں نے لوک سبھا چناؤ کے دوران دیش کی عوام سے یہ اپیل کی تھی کہ نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے سے روکیں۔ بھاجپا کو روکنے کیلئے دہلی اسمبلی چناؤ میں بھی کوشش کی گئی تھی۔ اگر ایوارڈ لوٹانے والے اس آئیڈیالوجی سے لڑنا چاہتے ہیں جس کی بھاجپا نمائندگی کرتی ہے تو بہتر ہوتا کہ وہ یہ کام اپنے قلم اور اپنے فن سے کرتے۔ قلم اور فن اس کی بڑی طاقت ہے فی الحال تو وہ ایک قسم کے منفی نظریہ پرستی دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمارے دل میں تو کم سے کم کوئی شبہ نہیں کہ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت ہورہا ہے اور یہ گینگ نہ صرف اپنی تحریر کو،فن کو بے عزت کررہے ہیں بلکہ دیش میں عدم استحکام پیدا کرنے کا ماحول تیار کرنے میں مدد کررہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟