آ بیل مجھے مار

اپنی 50 ویں سالگرہ پر 2 نومبر کو جب کروڑوں دلوں کی دھڑکن شاہ رخ خاں نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے چھوٹے سے بیان سے اتنا ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا۔ انہوں نے بیان دیا کہ ہمارے کھانے کو ہماری پہچان اور ہمارے مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ ایوارڈ واپس کرنے والے لوگ بہادر ہیں ،میں ان کے ساتھ ہوں۔ اگر وہ مجھے کسی مارچ یا کانفرنس میں آنے کے لئے کہیں گے تو میں آؤں گا۔ میرے گھر میں میرے بچے مذہب کو لیکر کافی کنفیوژ رہتے ہیں۔ شاہ رخ خاں نے آگے کہاں تبدیلی مذہب، عدم تحمل سے زیادہ دوری اور کوئی چیز نہیں ہے اور یہ اندھیرے کے دور میں لے جائے گی۔ ہمارے مذہب کو گوشت کھانے کی ہماری عادت سے متعارف نہیں کرایا جاسکتا۔ ایسا کہنا نہایت بچکانا ہے۔ ہماری رائے میں شاہ رخ خاں جیسے عظیم اداکار جس کی دیش بھکتی (حزب الوطنی) پر شک نہیں کیا جاسکتا، کو اس طرح کے سیاسی بیان سے پرہیز کرنا چاہئے تھا جو جانے انجانے میں شاہ رخ خاں نے دے کر مکھی کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اور بھگوا برگیڈ کی مدھو مکھیاں اب ان سے نمٹنے میں لگی ہوئی ہیں۔ سینئر بھاجپا لیڈر کیلاش وجے ورگیہ نے شاہ رخ خاں کو کرارا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی فلمیں بھارت میں کروڑوں روپے کماتی ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ یہاں عدم تحمل کا ماحول ہے۔ یہ دیش دروہی نہیں تو کیا ہے؟حالانکہ شام ہوتے ہوتے وجے ورگیہ اپنے اس بیان سے پلٹ گئے۔ انہوں نے کہا کہ میرا ارادہ کسی کو ٹھیس پہنچانے کا نہیں تھا۔ میں اپنے ٹوئٹ کو واپس لیتا ہوں۔ بھاجپا کے تیز طرار گورکھپور سے بھاجپا ایم پی ادتیہ ناتھ یوگی نے تو شاہ رخ خاں کا موازنہ لشکر طیبہ کے چیف حافظ سعید سے کر ڈالا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اکثریتی طبقے کے لوگ شاہ رخ خاں کی فلمیں دیکھنا بند کردیں تو انہیں عام مسلمان کی طرح گھومنا پڑے گا۔بھاجپا ایم پی مناکشی لیکھی نے کہا شاہ رخ کو 26 اکتوبر کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا نوٹس ملا ہے اور 1-2 تاریخ کو بھارت عدم تحمل کے ماحول میں بدل گیا ہے۔ شاہ رخ خاں نے بیان دیتے وقت یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے اس بیان کو پڑوسی ملک میں روپوش ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ و لشکر طیبہ کے چیف حافظ سعید کس طرح سے اس کا غلط فائدہ اٹھائیں گے؟ حافظ سعید نے اسی دن ٹوئٹ کرکے کہا کہ بھارت میں اگر کوئی مسلمان اپنے مذہب کے سبب پریشانی کا شکار ہے تو وہ پاکستان آسکتا ہے۔ اس میں فلم اداکار شاہ رخ خاں بھی شامل ہیں۔ اس پہلے ٹوئٹ میں سعید نے لکھا کھیل اکادمی، کلچر اور فن کی دنیا میں نامور ہندوستانی مسلمان بھی اپنی پہچان کو لیکر بھارت میں روز مرہ جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دوسرے ٹوئٹ میں لکھا کہ کوئی بھی ہندوستانی مسلمان ، جس میں فلم اسٹار شاہ رخ خاں بھی شامل ہیں، اپنی مذہبی پہچان کی وجہ سے بھارت میں امتیاز کا شکار ہورہا ہے۔ وہ چاہے تو پاکستان میں آکر رہ سکتا ہے۔ 
حافظ سعید نے شاہ رخ خاں کے بیان کو اپنے فائدہ۔ پالیسی کے تحت جو اٹھایا اس سے شاہ رخ خاں کے بیان کے تنازعے کا اشو ہی بدل گیا ہے۔ شاہ رخ خاں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر مجھ سے جانبداری برتی جارہی ہے اور میں بھارت میں رہ کر گھٹن محسوس کررہا ہوں۔ شیو سینا کے ایم پی سنجے راوت نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دیش تحمل والا ہے اور مسلمان بھی تحمل یعنی پرامن زندگی بسر کررہے ہیں۔ شاہ رخ کو محض اس لئے نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے کیونکہ وہ ایک مسلم ہے۔ اس پورے تنازعے میں پاکستان کو نہیں لانا چاہئے ۔ ویسے بھی یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ شاہ رخ خاں سپر اسٹار صرف اس لئے ہیں کہ بھارت میں تحمل اور رواداری ہے اور ان کومذہب کی بنیاد پر جانا نہیں جاتا۔جیسا میں نے کہا کہ شاہ رخ نے وہی کہاوت سچ کردی : آ بیل مجھے مار۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟