کیا سندیش دیتے ہیں یوپی کے پنچایت چناؤ نتائج

بدلے ہوئے تیور کے ساتھ اترپردیش کے ووٹر نئے موڈ میں دکھائی پڑتے ہیں۔ یوپی کے پنچایت انتخابات میں عوام نے سبھی پارٹیوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ جہاں سماج وادی پارٹی کے کئی وزیر اپنوں کی نیا پار نہیں لگوا سکے تو وہیں وزیر اعظم نریندر مودی کے گود لئے گاؤں جایا پور میں ہی بھاجپا حمایتی امیدوار کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ کانگریس کی تو مٹی پلیت ہوگئی ہے۔ راہل گاندھی کے گڑھ امیٹھی میں ہی اسے شرمناک ہارکا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب سے زیادہ فائدہ بہوجن سماج پارٹی کو ہوا ہے۔ بسپا کو ہاتھرس، علیگڑھ سمیت کئی اضلاع میں کامیابی ملی ہے۔ حیدر آباد سے ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) میں اترپردیش کی سیاست میں دستک دے دی ہے۔ سپا چیف ملائم سنگھ یادو وزیر اعلی اکھلیش یادو کے گڑھ میں بھاجپا حمایتی امیدوار کو شکست دے کر پارٹی میں ضلع پنچایت کی ایک سیٹ جھٹک لی ہے۔ پوی بلاک کی مقصودیہ سیٹ سے کیلاش کمار گوتم نے بھاجپا حمایتی امیدوار پھول چند بھارتی کو543 ووٹوں سے ہرادیا۔ کیلاش کمار گوتم 2660 ووٹ پا کر اپنی جیت کو سیڑھی مانتے ہیں اور ورکر آنے والے اسمبلی چناؤ میں تال ٹھونک کر اتریں گے۔ اترپردیش میں اقتدار کے سیمی فائنل (پنچایت چناؤ ) میں بھاجپا کی ہار نے پارٹی کے حکمت عملی سازوں کے ہوش اڑادئے ہیں۔ وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقے سمیت پورے کاشی علاقے میں ضلع پنچایت کی زیادہ تر سیٹوں پر بھاجپا کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کاشی علاقے کے تحت 12 اضلاع آتے ہیں ان اضلاع میں کل485 میں سے458 سیٹوں کے نتائج پیر کے روز اعلان کردئے گئے۔ بھاجپا کے کھاتے میں محض 67 سیٹیں آئی ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا چناؤ سے پہلے جس مظفر نگر دنگے سے ووٹوں کا پولارائزیشن ہوا وہاں ضلع پنچایت کی42 میں سے 29 سیٹوں پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔بھاجپا کو 6، سپا بسپا کو4-4 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ اکھلیش یادو کے کیبنٹ وزرا میں بہت سوں کو جیت حاصل ہوئی۔ سیاسی پارٹیوں کے چناؤ نشان کے بغیر لڑے گئے ان انتخابات میں آزاد امیدوار پارٹی امیدواروں پر بھاری پڑے۔ ان نتائج سے بہوجن سماج پارٹی کا دبدبہ بڑھے گا۔ یہ سماج وادی پارٹی کے لئے اچھا اشارہ نہیں ہے۔ جہاں تک بھاجپا کا سوال ہے اوپری سطح پر تو پارٹی کے نیتا کہہ رہے ہیں کہ ہم مطمئن ہیں۔ ہمیں15 ضلعوں میں کمان ملے گی حالانکہ نچلے سطح کے انتخابات میں بسپا کے ابھرنے سے پارٹی کو فکرمند ہونا چاہئے۔ مشن2017ء کے پیش نظر بھاجپا کواس بات کا ڈر ہے کہ سپا کے خلاف اپوزیشن کی شکل میں کہیں بسپا اس سے آگے نہ نکل جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟