صدر محترم کی دیش واسیوں کو نیک صلاح

دادری کانڈ کے تکلیف دہ حادثے کے بعد سیاسی لیڈروں کے ذریعے دئے جارہے بھڑکیلے بیان کے پیش نظر صدر محترمہ پرنب مکھرجی نے دیش واسیوں کو ان کے بنیادی اقدار کی یاد دلاتے ہوئے مل جل کر رہنے کی نیک صلاح دی ہے۔ کشیدگی بڑھتی دیکھ بسیڑہ گاؤں میں منگل کی رات فوج تعینات کر دی گئی۔ صدر پرنب مکھرجی نے کہا اخلاقیات ،رواداری اور اکثریت بھارت کے اصولوں میں شامل ہے۔ اسے مٹنے نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے بنیادی اقدار کو دماغ میں بنائے رکھنا چاہئے۔ اسے یوں ہی نہیں گنوا دینا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا ہمارے بنیادی اصول ہیں رواداری،اخلاقیات اور اکثریت اور انیکتا میں ایکتا، جنہیں برسوں سے ہماری تہذیب نے جوڑ کر رکھا ہے اور اس کا جشن منایا۔ انہی اقدار نے ہمیں صدیوں تک ایک ساتھ باندھے رکھا۔ کئی قدیمی تہذیبیں ختم ہوگئی ہیں لیکن ایک کے بعد ایک حملہ اور لمبی غیر ملکی حکمرانی کے باوجود اگر ہندوستانی تہذیب بچی ہے تو یہ اپنے روایتی اقدار کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔ صدر نے حالانکہ بسیڑہ گاؤں کا نام تو نہیں لیا لیکن ظاہر ہے کہ وہ دادری کانڈ سے کافی فکر مند دکھائی دئے۔ یقینی طور سے دادری کاتکلیف دہ واقعے نے دیش کے دل کو ٹھیس پہنچائی ہی ہے دنیا میں بھارت کی ساکھ کو بھی ایسے واقعات سے دھکا لگتا ہے۔ مرکز میں وزیر اعظم نریندر مودی ، وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اس کا کھلے طور سے اظہار بھی کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں مرکزی وزارت داخلہ نے بھی اسی جذبے سے ریاستی حکومت کو ایڈوائزری جاری کر ماحول بگاڑنے والے واقعات پر سخت کارروائی کی صلاح دی ہے۔اس درمیان بسیڑہ میں بدھوار کو ضلع مجسٹریٹ کی موجودگی میں دونوں فرقوں کے لوگوں کی پنچایت ہوئی اوردونوں نے ہاتھ اٹھا کر ایک ساتھ گاؤں میں رہنے کی حامی بھری۔ پنچایت میں اخلاق کے تینوں بھائی پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ گاؤں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اخلاق کے سب سے بڑے بھائی جمیل گاؤں کے باہر آکر میڈیا سے ملے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اب گاؤں چھوڑ دیجئے۔ پنچایت میں اخلاق کے چھوٹے بھائی جان محمد نے کہا کہ ہم گاؤں چھوڑ کر کیوں جائیں؟ یہ ہمارا گاؤں ہے۔ ہم لوگ یہیں پیدا ہوئے ہیں، یہیں رہیں گے۔ اخلاق کے بچے بھی واپس آئیں گے۔ اب گاؤں میں امن قائم ہوگیا ہے۔ ہمارا تو ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے کہ ایسے فرقہ وارانہ حادثوں کو گاؤں کے سبھی فریقین کے بزرگوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر سلجھا لینا چاہئے۔ جہاں انتظامیہ اور سرکار آئی وہیں سیاست کی روٹیاں سینکنے والے کچھ سیاسی بھیڑیئے پہنچ کر ماحول میں آگ لگا دیتے ہیں اور ایک بار کشیدگی بھرے ماحول میں یہ سیاسی لیڈر گھس جائیں تو پھر معاملہ سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے اوردیش اور بیرونی ممالک میں بھارت کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ صدر کی صلاح پر سبھی غور کریں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟