دہلی میں تو سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے

دہلی میں ہوائی آلودگی کی ساری حدیں پارہوتی جارہی ہیں۔ اب تو دہلی میں سانس لینے سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ بھارت کے سب سے زیادہ آلودہ 13 شہروں میں دہلی نمبر 1 پر ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایم ایل دوت نے اپنے گھر و کنبے کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ دہلی میں سانس لینا دشوار ہوگیا ہے اور ہوا میں زہر گھل رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں یہاں تک کہ میرا پوتا بھی ماسک پہنتا ہے۔ جب وہ ماسک لگاتا ہے تو کارٹون کریکٹر نرجا جیسا دکھائی پڑتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسئلے کواخبار کے صفحے اول پر شائع کریں۔ عام طور پر اخباروں کو ایسی نصیحت نہیں کی جاسکتی لیکن لوگوں میں بیداری لانا ضروری ہے اس لئے شائع کریں۔ چیف جسٹس اس مسئلے کے تئیں کتنے سنجیدہ ہیں ان کے اس تبصرے سے پتہ چلتا ہے۔ معاملے میں ایک 1985 میں داخل عرضی کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس سامنے آئے۔ قانون داں و سینئر سالیسٹر ہریش سالوے نے عدالت کو بتایا کہ کمرشل گاڑیاں پیسہ بچانے کے لئے قومی شاہراہ سے نہیں گزرتی ہیں بلکہ دہلی کے اندر سے ہو کر گزرتی ہیں اس وجہ سے بھی دہلی میں آلودگی کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق قریب 20 ہزار کمرشیل گاڑیاں روزانہ دہلی میں اینٹری کرتی ہیں۔ ایم سی ڈی کے مطابق 22628 جبکہ پرائیویٹ ایجنسیوں کے مطابق 38588 بڑی گاڑیاں (ٹرک) ہر روز باہر سے دہلی میں آتے ہیں۔ 30 فیصد سے زیادہ آلودگی ٹرکوں سے ہی بڑھتی ہے اور بچے و بزرگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کسی مذہبی کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ دیوالی پر پٹاخے چھوڑے جانے چاہئیں۔ یہ روشنی کا تہوار ہے شور کا نہیں۔ نیشنل گرین ٹریبیونل کے جسٹس چوڑی سالوے نے ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا تھا۔عرضی دیوالی پر چھوڑے جانے والے پٹاخوں اور اس سے ہونے والی ہوائی آلودگی سے متعلق تھی۔اس پر مرکز سے 12 اکتوبر تک جواب مانگا گیا ہے۔ 4 دن پہلے دہلی کے تین کنبوں نے 3سے14 مہینے کی عمر تک کے بچوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں بھی ایک اپیل دائر کی گئی ہے۔ اس سے صاف ہوا میں سانس لینے کے لئے معقول ماحول قائم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔وکیل سالوے نے عدالت میں کہا میری بیٹی اور بیوی کو دمہ ہے ۔ کچھ دن پہلے انہیں اسٹرائڈ لینا پڑا ہے۔ بہت بری حالت ہے۔ سانس لینا مشکل ہورہا ہے۔ ماحولیاتی قانون کا اصول ، آلودگی پھیلانے والوں کو جرمانہ کرنا ہوگا۔ اب آئینی انصاف نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ دہلی میں اگر آلودگی روکنی ہے تو ہم سبھی کو اس کے لئے متحد ہونا پڑے گا۔ سرکار، عدالتیں تو اپنا کام کررہی ہیں لیکن جب تک دہلی کے شہری اس میں ہاتھ نہیں بٹاتے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ وہ بھی آلودگی کی مار سے بچ نہیں سکتے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟