تین دن میں چار نکسلی حملے کیا ظاہر کرتے ہیں

چھتیس گڑھ کے بستر سمیت تین اضلاع میں تین دن کے اندر تقریباً300 کلو میٹر کے دائرے میں ہوئے چار نکسلی حملے ہماری سلامتی اور خفیہ مشینری کے موازنے میں نکسلیوں کی مضبوط حکمت عملی کی ہی نشاندہی کرتے ہیں۔ جس بے خوف انداز میں نکسلی ان حملوں کو انجام دے رہے ہیں اس سے انسداد نکسل آپریشن کی حکمت عملی پر سنگین سوال اٹھ رہے ہیں۔ ہر حملے کے بعد ہم سبق لینے اور پرانی غلطیوں کو نہ دوہرانی کی بات تو کرتے ہیں لیکن ان سے کچھ سیکھتے نہیں ہیں۔انہیں نہ دوہرانے کی بات تو دور رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے سکیورٹی فورسز نے کچھ دن پہلے ہی بستر میں مسلح ماک ڈرل (دکھاوٹی ریہرسل) بھی کی تھی ۔ اس کے باوجود یہ حملے روکے نہیں جاسکے۔ معمولی وقفے سے نکسلی ایسی وارداتوں کو انجام دینے میں مسلسل کامیاب ہورہے ہیں جس سے سکیورٹی فورس کو بھاری نقصان جھیلنا پڑتا ہے اور نکسلی اپنا خوف قائم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔خاص بات یہ بھی ہے کہ تازہ حملوں نے ان کئی بہانوں کے لئے گنجائش نہیں چھوڑی ہے جو ایسی وارداتوں کے بعد بنائے جاتے ہیں۔ یہ حملے یہی بیان کررہے ہیں کہ نکسلیوں نے پھر سے طاقت بنالی ہے اور وہ نئے سرے سے ہمت کا ثبوت دینے کو تیار نہیں۔ اسی ہمت کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ پہلے حملے میں شہید جوانوں کی لاشیں برآمد کرنے میں 24 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔ جب سی آر پی ایف پر ایسے حملے ہوتے ہیں تو ایک ہی رائج بہانہ رہتا ہے کیونکہ اس فورس کے جوانوں کو مقامی حالات کی معلومات کم تھی ، لہٰذا نکسلی ان پر بھاری پڑ گئے۔ لیکن تازہ نکسلی وارداتوں میں شکار مقامی فورس بھی متاثر ہوئی ہے اور بی ایس ایف بھی ۔ ایسا ہی ایک عام بہانہ یہ بھی رہا ہے کہ مرکز اور ریاستی سطح پر تال میل میں کمی کا فائدہ اٹھا کر نکسلی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہورہے ہیں لیکن چھتیس گڑھ میں برسوں سے بھاجپا کی حکومت ہے اور اب پچھلے تقریباً11 مہینوں سے مرکز کی باگ ڈور بھی اسی پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں مرکز اور ریاستی حکومت کے درمیان تال میل کی کمی کا بہانہ اب نہیں چل سکتا۔ اگر اب بھی تال میل میں کوئی کمی ہے تو اس کے لئے ریاستی سرکار اور مرکزی حکومت دیگر کسی کو الزام نہیں دے سکتی۔ یہ مایوس کن ہے ایک بار پھر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ چھتیس گڑھ میں پیراملٹری فورس کی خاصی موجودگی کے باوجود ان کا صحیح طرح سے استعمال نہیں ہورہا ہے۔ اگر پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے جوان اسی طرح نکسلیوں کے ہاتھوں شہید ہوتے رہے تو ان کا حوصلہ بنائے رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اب ضرورت حکمت عملی، تال میل اور وسائل کے سطح پر ایسی پختہ تیاری کی جائے جس کے ذریعے اس لال خوف کی کمر توڑی جا سکے۔ یہ صاف ہوچکا ہے نکسلی حملوں کا سلسلہ رکنے کا یہ نتیجہ نکالنا بڑی غلطی ہے کہ نکسلی اب کمزور پڑ گئے ہیں اور ان کی مار کی صلاحیت کم ہوگئی ہے۔ دراصل جب وہ سرگرم نہیں ہوتے اور آپریشن ڈھیلا پڑجاتا ہے تو وہ ہتھیار اور رسد اکھٹی کرکے نئے سرے سے حملے کرنے کی تیاری کررہے ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے نکسلیوں کے خلاف سخت کارروائی کے لئے ماحول بنایاجائے کیونکہ مڈبھیڑ میں نکسلیوں کو ڈھیر کئے جانے پر تو خوف سوال اٹھتے ہیں لیکن ہمارے جوانوں کے شہید ہونے پر محض خانہ پوری کی آواز ہی بلند سنائی پڑتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟