یمن جنگ میں پاکستان کا غیر جانبدار رہنے کا صحیح فیصلہ

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملک میں ایران حمایتی شیعہ باغیوں پر ہوائی حملے کررہے ہیں۔بیشک ہوائی حملے ہورہے ہیں لیکن حوثی لڑاکو نے یمن کے زیادہ تر حصوں پر قبضہ کرلیا ہے۔دو ہفتے گزر گئے ہیں لیکن سعودی عرب کی رہنمائی والا اتحاد حوثی باغیوں کے کنٹرول والے علاقے کو آزاد کرانے میں ناکام رہا ہے۔ باغیوں کا اثر بڑھتا چلا جارہا ہے اور ان کے بڑھتے اثر کے سبب صدر ابدربو منصور حادی کو دیش چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے۔ اس معاملے میں تہران اور باغی دونوں انکار کرتے ہیں کہ ایران انہیں ہتھیار دے رہا ہے۔ حوثیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے وفاداروں سمیت دیگر اتحادیوں پر مسلسل ہورہے حملے بھی باغیوں کو ادن کی طرف بڑھنے سے نہیں روک پا رہے ہیں۔ اس درمیان سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی مدد مانگی ہے اور اپنے فوجیوں کو یمن میں لڑنے کے لئے اپیل کی ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف 10 ملکوں کی طرف سے چلائی جارہی مہم کیلئے فوجی و جہاز اور جنگی بیڑے مہیا کرائے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس درخواست پر پاکستانی ممبران پارلیمنٹ و پاک فوج کی رائے مانگی تھی۔ گزشتہ پیر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تھا اور یمن کے حالات و سعودی عرب کی اپیل پر چار دنوں تک بحث چلی ۔ اس کے بعد جمعہ کو اتفاق رائے سے ریزولوشن پاس کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اس لڑائی میں غیر جانبداری برتنی چاہئے تاکہ وہ اس بحران کو ختم کرنے میں زیادہ سرگرم سفارتی رول نبھا سکے۔پارلیمنٹ میں پاس ہوئے ریزولوشن کا مطلب ہے کہ پاکستان اب یمن کے اندر جنگ میں حصہ نہیں بنے گا۔ ریزولوشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کی حفاظت کیلئے ریاض کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہنا چاہئے۔ اس میں سعودی عرب کے تئیں پوری حمایت ظاہر کی گئی۔ پاکستان کو غیر جانبدار رکھنے کیلئے پڑوسی ایران نے اپنے وزیر محمد جواد ظریف کو اسلام آباد بھیجا۔ ظریف نے نواز شریف ، کل فوج کے سربراہ راہل شریف سے ملاقات کی۔
ظریف ایسے وقت میں پاکستان گئے جب دیش کی پارلیمنٹ فوجی لڑاکے یا جنگی جہاز مہیا کرانے کے سعودی عرب کی درخواست پر غور کررہی تھی۔ پاکستان بری طرح سے پھنس گیا ہے ادھر کنواں تو ادھر کھائی۔ سعودی عرب سے اسے اربوں ڈالرہر برس ملتے ہیں، اسے وہ کسی حالات میں ناراض نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف ایران ان کا پڑوسی ہے اسے بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا اس لئے پاکستان نے بیچ کا راستہ اپنایا ہے اور غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ صحیح بھی ہے پاکستان کو اپنے فوجی یمن میں نہیں بھیجنے چاہئیں۔ کیونکہ نہ تو انہیں وہاں کے زمینی حالات پتہ ہیں اور نہ ہی اسے اس خانہ جنگی کا حصہ بننا چاہئے۔ ہاں ایک اور راستہ ہو سکتا ہے کہ وہ لشکرطیبہ و دیگر جہادی تنظیموں کو یمن میں سعودی اتحاد کے ساتھ لڑنے کو بھیج سکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟