محض آدھے گھنٹے میں کٹ جاتی ہیں چوری کی گاڑیاں

حالیہ وقت میں گاڑیوں کی چوری بڑھ گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کار چور ہائی ٹیک ہوگئے ہیں۔ وہ صرف پرانی گاڑیاں ہی نہیں چراتے بلکہ اب ان کے نشانے پر وہ گاڑیاں بھی ہیں جو مہنگی ہیں اور لوگوں کے بیچ سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ ان میں ایس یو وی (اسپیشل یوٹیلٹی وہیکل) اور ایم یو وی (ملٹی یوٹیلٹی وہیکل) سب سے زیادہ ہیں۔ حالانکہ چور ان گاڑیوں کو چرانے سے بچتے ہیں جو کہ سیٹلائٹ لاک سسٹم سے آراستہ ہیں۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق گاڑی چور گاڑی چرانے کے بعد اس کو محض آدھے گھنٹے میں کاٹ دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک پرزہ بیچ دیتے ہیں۔ آسام سے کانگریس کی ممبر اسمبلی رومی ناتھ کی گرفتاری معاملے میں آٹو چور انل چوہان کا نام آیا ہے اور اسے پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ گاڑی چوروں کا کاروبار مانگ اور سپلائی کے اصول پر کام کرتا ہے جس گاڑی کی سب سے زیادہ مانگ ہوتی ہے اسی کو سب سے زیادہ چوری کیا جاتا ہے۔ دہلی پولیس کے پچھلے دو برسوں میں گاڑی چوری کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2013ء میں جہاں13895 گاڑیاں چوری ہوئیں وہیں 2014ء میں یہ تعداد بڑھ کر 22223 ہوگئی تھی۔ پولیس کی سالانہ پریس کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ گاڑی چوری کا حصہ دہلی میں کل ہوئی جرائم کا 15 فیصد ہے اس کی ایک وجہ پارکنگ کی کمی، سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی ہونا بھی ہے۔ پولیس ذرائع کی مانیں تو پچھلے ایک سال میں گاڑی چوروں نے فورچونر، ہونڈاسٹی، اسکارپیو اور ویگن آر وغیرہ گاڑیوں کی تلاش کرتے ہیں۔اس طرح کی گاڑی نہ ملنے پر ہی وہ چھوٹی گاڑیوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں بھی سینٹرو آئی 10 ، ویگن آر گاڑی کو گاڑی چور پہلے نشانہ بناتے ہیں۔ پولیس کے مطابق دہلی میں گاڑی چور مایا پوری کے بازار میں بیچتے ہیں۔ کئی بار پولیس نے ایسے کئی چور پکڑے ہیں جو مایا پوری میں جاکر گاڑی بیچ رہے تھے لیکن پچھلے کچھ برسوں میں یوپی کے میرٹھ کے کچھ علاقوں اور جامع مسجد اور مشرقی ریاستوں میں بھی کاریں بیچنے کا دھندہ بڑھا ہے۔ 
شمال مشرقی ریاستوں میں دہلی سے گاڑیاں چوری ہوکر جاتی ہیں ۔ ان کے کاغذات بھی بن جاتے ہیں اور یہیں سے دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ پڑوسی دیش نیپال، بنگلہ دیش میں بھی بیچا جاتا ہے۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ اگر راجدھانی سے کوئی گاڑی چوری ہوجائے تو پولیس کے پاس ایسی کوئی مشینری نہیں ہے کے چوری ہوئی گاڑی کے بارے میں پڑوسی ریاستوں کو مطلع کرسکیں۔ اکثر گاڑی چور گاڑی چرا کر نکلتے ہیں وہ کئی ریاستوں میں سفر کرتے ہوئے گاڑی کو کباڑی بازار میں جاکر بیچ دیتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ریاستوں کی سرحد پر بھی اس طرح کا کوئی سسٹم کام نہیں کرتا کہ اگر کوئی چوری کی گاڑی جا رہی ہے تو اسے پکڑا جاسکے۔ کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ گاڑی چوری کے معاملے میں پولیس ایف آئی آر بھی دیری سے درج کرتی ہے۔ اگر ایف آئی آر کو دوسری ریاستوں کی پولیس سے تال میل بٹھا کر ، ان کے کمپیوٹر یا موبائل سے جوڑ کر الگ سسٹم لایا جائے تو چوری کی وارداتوں پر لگام لگ سکتی ہے۔ سفید کاروں والوں کے لئے وارننگ۔ کار چوری کی سب سے زیادہ وارداتیں سفید کاروں کی ہوتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟