ان پراکسی سیکولرسٹوں کیلئے ایک اور سبق!

ہندوستان کی پانچ ہزار سال پرانی جسمانی، ذہنی اور روحانی روایات یوگ کی اہمیت پر مہر لگا کر امریکہ کی بڑی عدالت نے ثابت کیا ہے کہ اس کا ہندوتو کے فروغ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔اسکولوں میں اس کے سکھائے جانے سے کسی کی مذہبی آزادی کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔امریکہ کی ایک عدالت نے کہا کہ کیلیفورنیا کے پرائمری اسکول میں یوگ سکھائے جانے سے ہندوتو کی حمایت نہیں ہورہی ہے اور نہ ہی طلبا کی مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ سینڈڈیاگو کی تین نفری اپیلیٹ عدالت نے طلبا کے ماں باپ کی طرف سے دائر کردہ ایک مقدمے پر اتفاق رائے سے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ انہوں نے شکایت کی تھی کہ اوٹ پٹانگ یوگ کی تعلیم دے کر انیسیم ضلع کے ایک اسکول میں ہندو اور بودھ مذہب کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یوگ کو فروغ دینے والے ایک غیر مفاد کاری گروپ سے تین سال کی گرانڈ ملی ہے اس کے تحت ضلع کے5600 طلبا کو 30 منٹ تک ہفتے میں دو بار یوگ سکھایا جاتا ہے۔ طلبا کے ماں باپ نے دلیل دی تھی کہ اسکول کا یوگ پروگرام روحانیت پر مبنی ہے اور اس لئے غیر آئینی ہے۔ عدالت کے دستاویزات کے مطابق عدالت کو یہ مقرر کرنا ہے کہ اسکول کا یوگ پروگرام جسمانی تعلیمی نصاب کا حصہ ہے یا کیلیفورنیا کے آئین کی خلاف ورزی کرکے مذہب کی نامنظوری کی تصدیق کرتا ہے؟ عدالت نے یوگ کلاسوں کا ویڈیو دیکھا جنہیں روایتی جم کلاسس کے طور پر دکھایا جاتا رہاہے۔ جسٹس سنتھیا ایرون نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ پروگرام کے مقصد میں سیکولرازم ہے اور اس کا مذہب کو آگے بڑھانے یا روکنے پر ابتدائی اثر نہیں ہے۔ اور ضلع اسکول مذہب میں زیادہ نہیں اچھالتا ہے اس لئے ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ نچلی عدالت نے صحیح نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ضلع کا یوگ پروگرام ہماری ریاست کے آئین کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ بھارت اپنی جن تمام خوبیوں کے ساتھ پھر دنیا کی لیڈر شپ کرنے کی ڈگر پر گامزن ہے اس میں یوگ کی شکل میں دنیا کو اس کا اشتراک بہت اہم پہلو ہے۔ آج امریکہ اور یوروپ کے کئی ملکوں کے اسکولوں اور سماجوں میں روایتی جمنگ کے زیادہ فائدے مند متبادل کی شکل میں یوگ کی تعلیم اور چلن بڑھ رہا ہے لیکن بھارت کے خود ساختہ سیکولر نظریہ رکھنے والوں کا نقطہ نظر اتنا اوچھا ہے کہ ان کی آنکھ سے فرقہ پرستی کا چشمہ ہٹتا ہی نہیں ہے۔ آج کی میڈیکل سائنس علاج کے ساتھ یوگ کے استعمال کو ویریفائی کرتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک اپیل پر دنیا کے 175 ملکوں نے بین الاقوامی دوس منانے کی رضامندی یوں ہی نہیں دے دی۔ لیکن یہ سب دیکھ اور سمجھ پانے کیلئے منفی نظریئے کا چشمہ اتارنا پہلی شرط ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟