اب درندوں کو بھی ستانے لگا پھانسی کا پھندہ!

جرائم پیشہ میں خوف پیدا کرنا ضروری ہے۔ قانون کا خوف نہ ہونے کے ہم منفی نتیجے دیکھ رہے ہیں۔ جب ان درندوں کو سزا کا خوف ہونے لگے گا تبھی ان کے سدھرنے کا چانس بنتا ہے۔ خوف کی تازہ مثال ہمارے سامنے آگئی ہے۔ وسنت وہار گینگ ریپ کے درندوں کو اب اپنے جان کی فکر ستانے لگی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایتوار کو دو ملزمان نے عدالت میں سرکاری گواہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ دراصل قارئین کو بتادیں کہ سرکاری گواہ بننے کا مطلب اور فائدہ کیا ہوتا ہے؟ قانوناً جو کوئی سرکاری گواہ بنتا ہے اسے سزا سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ سرکاری گواہ بننے والا شخص اگر جیل میں ہوتا ہے تو ٹرائل کی میعاد کے دوران اسے جیل میں گذارا گیا وقت ہی اس کے لئے سزامانی جاتی ہے۔ اگر کسی کو ضمانت مل گئی ہے تو ضمانت سے پہلے گذارا گیا وقت ہی اس کی سزا مان لی جاتی ہے اور بدلے میں وہ اپنے ساتھی جرائم پیشہ کے خلاف گواہی دے کر پولیس کو جرم ثابت کرنے میں مدد کرتا ہے۔ سرکاری گواہ بننا کسی بھی ملزم کے لئے سوچی سمجھی چال ہوتی ہے تاکہ سزا کے وقت عدالت اس پر نرمی برتے۔ سرکاری گواہ بنے ملزمان کو عموماً کم سزا ہوتی ہے۔ سنیچر کو ساکیت کورٹ میں میٹرو کنوکشن افسر جوتی کالرا کے سامنے پیشی کے دوران چار میں سے دو ملزمان پون گپتا اور ونے شرما نے خود کو سرکاری گواہ بننے کی خواہش ظاہر کی اور دونوں ملزمان نے گرفتاری کے بعد عدالت میں پیشی کے دوران خود کو پھانسی دئے جانے کی مانگ کی تھی۔ قانون کے ماہرین کا خیال ہے کہ ان دونوں ملزمان کو گواہ بنانے کی ضرورت دہلی پولیس کو نہیں ہے۔ کیونکہ دہلی پولیس کے پاس کافی ثبوت ہیں اور انہیں کی بنیاد پر اسے کیس ثابت کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہئے۔ عدالت نے چاروں ملزمان کو19 جنوری تک جوڈیشیل ریمانڈ میں جیل بھیج دیا۔ دیگر دو ملزمان نے مقدمے کے لئے کورٹ سے قانونی مدد فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔ کسی بھی بدفعلی میں ملوث ملزم کو تبھی سرکاری گواہ بنایا جاتا ہے جب پولیس یا جانچ ایجنسی کے پاس ثبوت کم ہوں یا نہ ہوں۔ پولیس کے پاس متوفی کا خود کا دیا ہوا بیان ہے۔ اس کے دوست کی شکل میں چشم دید گواہ بھی موجودہے۔ پولیس افسر ، ڈاکٹر فورنسک رپورٹ وغیرہ وہ سب گواہی اور ثبوت موجود ہیں جو مجرمانہ کو سزا دلانے کے لئے کافی ہوں گے۔ ان حالات میں ہمیں نہیں لگتا پولیس ان دونوں کو سرکاری گواہ بنانے کے لئے حامی بھرے گی۔ پھانسی کا پھندہ، موت کا خوف اب ملزمان کو ستانے لگا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے یہ ہتھکنڈہ اپنایاگیا ہے۔ یہ درندگی تبھی رکے گی جب پھانسی کے پھندے پر انہیں لٹکایا جائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟