لانس نائک ہیمراج و سدھاکر سنگھ جیسے بہادر کبھی نہیں مرتے!

ترنگے میں لپٹا گھر لوٹا شیر گڑھ کا شیر لانس نائک ہیمراج کے کوسی کلاں(متھرا) گاؤں والوں نے اپنے شہید کو یہ ہی پیغام دیا۔ خبر آنے کے بعد سے ہی روکتی بلکتی ماں مینا دیوی بیٹے کی لاش گھر پہنچتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ پہلے میرے بیٹے کا سر لاؤ۔ فوج کے جوان دو گھنٹے تک دھاڑ دھاڑ کر یہ ہی کہتی مینا دیوی کو خاموش کرنے میں لگے رہے۔ آخر میں فوج کے جوانوں نے ہیمراج کی لاش کو چتا پر لٹایا تو گاؤں کے باقی لوگ بھی آگئے اور مینا دیوی کی آواز بن گئے۔ سبھی نعرے لگا رہے تھے کہ شہید کا سر چاہئے، صاحب ایک بار پھر آدیش دے دو،دو دو ہاتھ کرنے کے لئے پھر دیکھو ہم ان کا کیا حال کرتے ہیں۔ انہوں ننے ہمارے دو ساتھیوں کو بے رحمی سے مارا ہے ہم ان کی پوری بٹالین کو موت کی نیند سلانے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ بس ایک بار حکم دے دو۔۔۔ غصے میں بھرے ان خیالات کا اظہار سرحد پر تعینات 13 راجپوتانہ رائفلز ریجمنٹ کے جوانوں کے ہیں۔ وہ بار بار اپنے حکام سے یہ ہی درخواست کررہے تھے۔ بدلے کی آگ میں اس قدر جھلس رہے ہیں کہ انہوں نے دو دن سے کھانا تک نہیں کھایا۔ وہ بھوک ہڑتال پر ہیں اور یہ ہی کہہ رہے ہیں جب تک بدلہ نہیں لے لیں گے گیہوں کا ایک دانا بھی نہیں کھائیں گے۔ اس ریجمنٹ کے جوانوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ساتھیوں کی شہادت یوں ہی ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ ہم بدلہ ضرور لیں گے۔ کم و بیش پورے دیش میں یہ ہی آواز بلند ہورہی ہے۔ان پاکستانی درندوں کو نہ تو جنیوا سمجھوتے کی پرواہ ہے اور نہ ہی ان کی ذہنیت 19 ویں صدی سے باہر نکل پائی ہے۔ اس صدی میں قبیلوں کی لڑائی میں اپنے دشمن کے سرکو ٹرافی مان کر لے جانے والے ہیڈ ہنٹرس (سر کاٹنے والے) آج بھی پاکستانی فوج میں موجود ہیں۔ قاعدے قانون، انسانیت میں بھروسہ رکھنے والی ہندوستانی فوج سے بالکل برعکس پاکستانی فوج ایک بار نہیں کئی بار ایسی درندگی کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ سال1999ء میں کارگل سے پہلے پاکستانی فوج کے جوانوں نے ٹھیک اسی حالت میں فوج کی16 ویں بٹالین پر کنٹرول لائن پار کر جوانوں پر گھات لگاکر حملہ کر ان کے سر کاٹ لئے تھے۔ پچھلے 12 برسوں میں جموں و کشمیر میں سر کاٹ کر لے جانے کا یہ ایسا دوسرا واقعہ ہے۔ کارگل جنگ کے دوران کیپٹن سوربھ کالیا کے سرکو جسم سے الگ کرنے والی پاکستانی فوج نے کپواڑہ میں واقع کنٹرول لائن پر بھی بھارتیہ فوج کے کچھ جوانوں کو اذیتیں دے کر مارا تھا۔ شہید لانس نائک ہیمراج اور لانس نائک سدھاکر سنگھ کے بے رحمانہ قتل کے پیچھے پاکستانی فوج کا ہاتھ ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بتایا کہ اس بربریت کے کچھ دن پہلے لشکرطیبہ کے بانی خطرناک آتنک وادی سرغنہ حافظ سعید نے کنٹرول لائن کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس نے کچھ لوگوں سے وہاں بات بھی کی تھی۔ پونچھ کے مینڈھر سیکٹر میں بھارت ۔ پاک سرحد پر اس بربریت آمیز قتل کو پاکستان اسپیشل کمانڈو فورس نے انجام دیا۔ بھارتی جوانوں کو جس طرح سے نشانہ بنایا گیا اس سے صاف ہے کہ ان کا منصوبہ کافی پہلے بنا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق حملہ آور پاکستان کی29 ویں بلوچ ریجمنٹ میں افغانستان کے کچھ آتنک وادی شامل کر انہیں اس طرح کی چھاپہ مار جنگ کے لئے خصوصی ٹریننگ دی گئی ہے۔ ہندوستانی فوج کی 25 ویں ڈویژن کے ڈپٹی جنرل آفیسر کمانڈنگ برگیڈیئر جے کے تیواری نے بتایا کہ راجوری میں شہیدوں کو شردھانجلی دینے کے بعد حملہ ہوا تھا۔ اس وقت دونوں جوان 8 ممبری گشتی پارٹی کا جائزہ لے رہے تھے۔ کالی وردی پہنے پاکستانی فوجیوں نے 600 میٹر ہندوستانی علاقے میں گھس کر گھنے کہرے میں نشانہ لگایا اور پارٹی کے پاس آتے ہی انہوں نے آگے چل رہے دو جوانوں پر گولی مارکر شہید کردیا۔ 25 منٹ تک گولی چلی۔ گولہ باری میں موقعہ پا کر پاکستانی فوجیوں نے دونوں جوانوں کے سر کاٹ لئے۔ سدھاکر سنگھ کا سر غائب تھا ۔ اس کی تلاش جاری ہے جبکہ بدھوار کی صبح شہید ہیمراج کی لاش گاؤں شیر پور پہنچی تو شیر ہیمراج کی شہادت پر ہر گاؤں والے کا سینہ فخر سے چوڑا تھا۔100 سے زیادہ عورتوں سے گھری ہیمراج کی بیوی دھرموتی سے جب پوچھا گیا کہ تیرا بیٹا کیا کرے گا؟ تو وہ پھربولی سرحد پر جائے گااوردیش کی حفاظت کرے گا۔ میرا لال پرنس اب فوج میں جائے گا۔ ابھی 7 سال کا ہے بڑا ہوکر ضرور جائے گا اب وہی دشمنوں کو سبق سکھائے گا۔ ہم ہیمراج کے کنبے کے دکھ میں ساتھ ہیں ۔ ان کے جذبے کو سلام کرتے ہیں۔ ہیمراج اور سدھاکر سنگھ جیسے بہادر کبھی نہیں مرتے۔ وہ امر ہوجاتے ہیں۔ آج سارا دیش ان کی شہادت کو سلام کرتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟