آر ایس ایس کو’’پپو‘‘ بھاجپا پردھان کی تلاش

بھاجپا میں صدر کے عہدے کولیکر کی گئی پارٹی آئین میں ترمیم کے بعد سے زیادہ تر بڑی ریاستوں و علاقائی منڈلوں کے ذریعے دوسری میعاد کی چاہت بھاجپا کے لئے بڑی مشکل بنتا جارہا ہے۔ پارٹی کے سینئر ذرائع کی مانیں تو پارٹی کے لئے اہم کئی ہندی بولنے والی ریاستوں جیسے بہار، راجستھان، چھتیس گڑھ، اترانچل میں تنظیم کے بڑے عہدوں پر بیٹھے لیڈر ہر ممکن کوشش میں لگیں ہیں کہ نتن گڈکری کو بھی آرایس ایس پردھان کی طرح دوسری میعاد دے دی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کیا یہ طے ہوگیا ہے کہ موجودہ پردھان کو قومی صدر کے عہدے کے لئے کلین چٹ مل گئی ہے؟ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے اتفاق رائے کے بعد ہی نیا پردھان طے ہوگا۔ مذہبی مانیتاؤں کے مطابق مکر سکرانتی سے سوریہ دیو کے اتردشا میں داخل ہونے کے بعد ہی اچھے کام شروع ہوتے ہیں۔ اس لئے مانا جارہا ہے بھاجپا اسی دن کا انتظار کررہی ہے۔ بھاجپا لیڈر شپ یا آر ایس ایس کو پردھان کے لئے نتن گڈکری کا متبادل نہیں مل رہاہے۔ بھاجپا پر اپنی پکڑ بنائے رکھنے کے لئے آر ایس ایس نے پپو پردھان کی تلاش شروع کردی ہے لیکن سنگھ کی مشکل یہ ہے کہ وہ جس پارٹی کے لیڈروں کو سب سے زیادہ پسند کررہا ہے وہ خود اسے لینے کو تیار نہیں ہے۔ سنگھ کسی بھی قیمت پر دلی فورم یا جسے ڈی۔4 کہا جاتا ہے ،میں کسی کو کوئی عہدہ سونپنا نہیں چاہتے ۔ ویسے تو سنگھ کی پہلی پسند موجودہ پردھان نتن گڈکری ہیں لیکن اگر حالات ٹھیک نہیں نظر آئے تو وہ جن ناموں پر غور کررہے ہیں ان میں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیو راج سنگھ چوہان، سابق پردھان راجناتھ سنگھ، شانتا کمار شامل ہیں۔ سشما سوراج کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ بھاجپا کے ایک سینئرلیڈر کے مطابق حقیقت میں سنگھ کو ایک ’’پپو‘‘ پردھان کی تلاش ہے جو صرف اس کے ایجنڈے کو لاگو کرسکے۔ اسے کبھی آنکھیں نہ دکھائے۔ اس پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیا جاسکے۔ اس کسوٹی پر کم ہی لیڈر کھرے اتریں گے۔ لوک سبھا میں کئی بڑے لیڈر ہیں جو اپنے آپ کو پردھان کے عہدے کے لئے اہل مانتے ہیں۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، یشونت سنہا، جسونت سنگھ، اننت کمار، گوپی ناتھ منڈے سمیت لیڈروں کی لمبی فہرست ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی کو لیکر مشکل یہ ہے کہ وہاں بھی ان کا جانشین سشما جی کی طرح چننے میں مشکل ہوجائے گا۔ راجناتھ سنگھ پر اڈوانی خیمہ شاید تیار ہوجائے۔ موجودہ پردھان نتن گڈکری کی میعاد19 دسمبر کو ختم ہوگئی لیکن پارٹی کے اندر کسی ایک شخص کے نام پر اتفاق رائے نہ بن پانے کی وجہ سے فی الحال گڈکری کو ہی تھوڑی میعاد دے دی جائے۔ بھاجپا کے لئے اگلا پردھان انتہائی اہم ہوگا۔ اگر لوک سبھا چناؤ وقت پر یعنی 2014ء میں ہوتے ہیں تو بھی بھاجپا کے نئے پردھان کو چناوی جنگ کے لئے تیاری کیلئے ڈیڑھ سال ملے گا۔ پھر اس سال 9 ریاستوں کے اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ اگلے دو مہینے میں کرناٹک، میگھالیہ، ناگالینڈ، تریپورہ اور اس کے بعد دہلی، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور میزورم اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ بہت کم وقت رہ گیا ہے اور دیش کی بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا یہ نہیں طے کر پارہی کے پارٹی صدر کون ہوگا۔ امید کریں کے یہ مکرسکرانتی کے فوراً بعد پتہ لگے گا کہ پارٹی کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟